"جنازے میں شرکت کی فضیلت" کے نسخوں کے درمیان فرق

(«{{شروع متن}} {{سوال}} کیا جنازے میں شریک ہونا، میت اور شرکت کرنے والوں کے لئے فائدہ مند ہے؟ {{پایان سوال}} جنازے میں حاضر ہونے کی تاکید اور سفارش کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جنازے میں شرکت کرنے والے افراد، اس کے ذریعہ موت اور آخرت کو یاد کرتے ہیں...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 20:25، 20 فروری 2025ء

  1. تغییر_مسیر الگو:پاسخ
سؤال

کیا جنازے میں شریک ہونا، میت اور شرکت کرنے والوں کے لئے فائدہ مند ہے؟

جنازے میں حاضر ہونے کی تاکید اور سفارش کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جنازے میں شرکت کرنے والے افراد، اس کے ذریعہ موت اور آخرت کو یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح جنازے میں شرکت کرنے کے فائدوں میں سے ایک فائدہ، وہ ثواب بتایا گیا ہے جو شرکت کرنے والوں اور میت دونوں کو حاصل ہوتا ہے۔ پیغمبر گرامی اسلام (ص) نے جنازے میں شرکت کی سفارش فرمائی ہے اور آپ کا ماننا تھا کہ یہ کام انسان کو آخرت کی یاد دلاتا ہے۔ امام جعفر صادق (ع) مصیبت زدہ افراد سے سفارش کرتے تھے کہ دوسروں کو موت کی اطلاع دیں تاکہ وہ بھی جنازے میں حاضر ہوسکیں، اور میت پر نماز پڑھ سکیں اور اس طرح خود انہیں بھی ثواب حاصل ہو اور میت کی بھی بخشش کا سبب بنے۔

موت اور آخرت کو یاد کرنا

بعض روایات میں جنازے میں شرکت کا فائدہ، موت اور آخرت کی یاد کا آنا بتایا گیا ہے: پیغمبر اکرم (ص) نے جنازے میں شرکت کی سفارش فرمائی؛ کیونکہ یہ عمل انسان کو آخرت کی یاد دلاتا ہے۔ احادیث کے مطابق، جب پیغمبر اکرم (ص) جنازے میں شریک ہوتے تھے، تو وہ غمگین ہوجاتے تھے اور کم بولتے تھے۔[1]

امام صادق (ع) نے فرمایا:
«جنازے میں شرکت کے دوران، یہ سوچا کرو کہ خدا نے تمہیں اس دنیا میں دوبارہ زندگی عطا کی ہے۔ اب دیکھو کہ تم کس طرح اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہو۔»[2]

امام باقر (ع) نے جنازے میں شریک ہونے کو ولیمہ کی تقریب میں شرکت سے زیادہ اہم سمجھا؛ کیونکہ جنازے میں شریک ہونا انسان کو موت اور آخرت کی یاد دلاتا ہے۔[3]

پیغمبر گرامی اسلام (ص) نے جناب ابوذر غفاری کو جنازے میں شریک ہونے کے سلسلے سے نصیحتیں فرمائیں اور انہیں متوجہ کیا کہ جب بھی تم کسی میت کے پیچھے جاؤ تو تمہاری عقل کو غور و فکر اور خشوع کے ساتھ اس میں مشغول رہنا چاہئے، اور یہ جان لو کہ تمہیں بھی ایک دن وہیں پہنچنا ہے۔[4]

امام علی (ع) نے سنا کہ ایک شخص جنازے میں ہنس رہا ہے تو آپ نے فرمایا: «ایسا لگتا ہے کہ اس دنیا میں موت کو دوسروں کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔»[5] پھر خبردار کیا کہ یہ جنازے جو دفن کے لئے جارہے ہیں، واپس نہیں آئیں گے اور ہم بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔[5]

جنازے کے شرکاء اور میت کی بخشش

جنازے میں شرکت کے فائدوں میں سے ایک فائدہ وہ ثواب ہے جو شرکاء کو نصیب ہوتا ہے۔[6] اسی طرح امام باقر (ع) سے منقول ایک روایت کے مطابق، جنازے می شرکت کرنے والوں کو چار شفاعتیں نصیب ہوتی ہیں[7] اور فرشتے، جنازے میں شرکت کرنے والوں کو جنت کا وعدہ دیتے ہیں۔[8]

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ جو بھی، کسی مومن کے جنازے کی دفن ہونے تک ہمراہی کرے، خداوند متعال قیامت میں اس کے ساتھ ستر فرشتوں کو مقرر کرے گا، جو اس کے ساتھ رہیں گے اور اس کے لئے بخشش کی دعا فرمائیں گے۔[9]

امام جعفر صادق (ع) مصیبت زدہ افراد سے سفارش کرتے تھے کہ دوسروں کو موت کی اطلاع دیں، تاکہ وہ بھی جنازے میں حاضر ہوسکیں، اور میت پر نماز پڑھ سکیں اور اس طرح خود انہیں بھی ثواب حاصل ہو اور میت کی بھی بخشش کا سبب بنے۔[10] امام باقر (ع) نے ایک روایت میں فرمایا ہے کہ بخشش ان لوگوں کا تحفہ ہے جو جنازے میں شریک ہوں۔[8]

جنازے میں اصل، انسانی قدر و اہمیت پر رکھی گئی ہے، کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ ایک جنازہ لے جایا جارہا تھا جبکہ نبی گرامی اسلام (ص) اپنے اصحاب کے ہمراہ تشریف فرما تھے، آپ (ص) اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ جنازہ گذر گیا، آپ سے دریافت کیا گیا کہ یہ ایک یہودی تھا اور پیغمبر(ص) کا اس کی لاش کا احترام کرنا کس وجہ سے تھا؟ آپ نے فرمایا: «کیا وہ انسان نہیں تھا؟!»[11]


حوالہ جات

  1. شیخ عباس قمی، سفینه البحار، نشر اسوه، ج۴، ص۵۶۵.
  2. حسینی تهرانی، معادشناسی، ج۳، ص۳۴.
  3. علامه مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۸، ص۲۸۴.
  4. طبرسی، مکارم الأخلاق‏، ۱۴۱۲ق، ص۴۶۵.
  5. اس تک اوپر جائیں: 5.0 5.1 صبحی صالح، نهج البلاغة، حکمت ۱۲۲، ص۴۹۰.
  6. الانوار النعمانیه، ص۲۲۰.
  7. قمی، شیخ عباس، سفینة البحار و مدینة الحکم، نشر اسوه، ج۴، ص۵۶۵.
  8. اس تک اوپر جائیں: 8.0 8.1 کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۳، ص۱۷۲.
  9. محمد باقر مجلسی، زاد المعاد، ص۵۴ و ۵۵.
  10. طبرسی، مکارم الأخلاق‏، ۱۴۱۲ق، ص۳۶۰.
  11. بحار الانوار، ج۱۸، ص۲۵۴.