"انبیاء اور معصومین علیہم السلام سے توسل" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی پاسخ سے
(«{{شروع متن}} {{سوال}} کیا انبیاء اور معصومین علیہم السلام سے توسل جائز ہے؟ {{پایان سوال}} {{پاسخ}} مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں غیر خدا سے توسل کی سفارش کی گئی ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ یہ توسل اللہ سے نزدیک ہونے کا ذریعہ بنے۔ اسی طرح مسلمانوں...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک دوسرے صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا)
سطر 32: سطر 32:
==منابع==
==منابع==
{{پانویس}}
{{پانویس}}
{{شاخه
 
| شاخه اصلی = کلام
[[fa:توسل به غیر خداوند]]
| شاخه فرعی۱ = امامت عامه
[[ar:التوسل بغیر الله تعالی]]
| شاخه فرعی۲ = توسل
[[en:Tawassul to Non-God]]
| شاخه فرعی۳ =
[[es:Intermediación a otro que no sea Dios]]
}}
[[ps:پرته له خدای باندی توسل]]

حالیہ نسخہ بمطابق 18:02، 9 اکتوبر 2022ء


سؤال

کیا انبیاء اور معصومین علیہم السلام سے توسل جائز ہے؟


مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں غیر خدا سے توسل کی سفارش کی گئی ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ یہ توسل اللہ سے نزدیک ہونے کا ذریعہ بنے۔ اسی طرح مسلمانوں اور علمائے دینی کا طور طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ معصومین علیہم السلام سے توسل کرتے تھے۔

غیر خدا سے توسل میں انبیائے الہی اور ائمہ سے توسل آتا ہے۔ خداوند عالم سے نزدیک کرنے والا یہ توسل، قرآن و روایات سے تصدیق شدہ ہے۔

وسیلہ کا ضروری ہونا

کسی نتیجہ تک پہنچنے کے لئے وسیلہ اور ذریعہ سے استفادہ کرنا ایک مسلم بات ہے اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ اسی طرح معنوی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے اللہ نے کچھ وسیلے قرار دئے ہیں کہ انسان ان وسیلوں کے ذریعہ مقامات عالیہ تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن میں آیا ہے: ﴿یا اَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّهَ وَ اتْبَغُوا اِلیهِ الوَسیلَه وَ جاهِدُوا فی سَبیلِهِ لَعَلَّکُم تُفلِحوُن (مائده، ۳۵) ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ

قرآن و روایات میں غیر خدا کا وسیلہ

«وسیلہ» سے مراد ہر وہ چیز ہے جو انسان کو اللہ سے نزدیک کرے اور یہ کبھی کبھی خود انسان سے متعلق ہوتی ہے جیسے علم و آگاہی، نماز، حج، زکات اور راہ خدا میں جہاد؛ یا کبھی کبھی وہ لوگ جو انسان کا ہاتھ تھام کر اسے معنوی بلندیوں تک لے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سورہ مائدہ کی 35 ویں آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: «اَنَا وَسیلَتُهُ»، میں اس کا وسیلہ ہوں[1] یا آپ نے فرمایا ہے: تَقَرَّبُوا اِلیهِ بِالاِمام. امام کے ذریعہ اللہ سے نزدیک ہوا کرو۔ اسی وجہ سے آیات قرآن میں توسل کو لیکر گزشتہ انبیاء کے بہت سے نمونے بیان کئے گئے ہیں۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کا اہل بیت علیہم السلام سے توسل کرنا (بقره، ۳۷) اور برادران حضرت یوسف کا حضرت یعقوب سے اس وقت توسل کرنا۔ جب برادران یوسف کو سمجھ میں آگیا کہ انھوں نے غلطی کی ہے تو انھوں نے اپنے والد سے استغفار کے لئے توسل کیا اور حضرت یعقوب نے اسے قبول بھی کر لیا: ﴿قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ[2] ان لوگوں (فرزندان یعقوب) نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے

انبیاء اور ائمہ سے توسل

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سے مسلمانوں کا توسل آپ کی زندگی ظاہری میں بھی موجود تھا اور آپ کی رحلت کے بعد بھی قائم رہا۔ بہت سے لوگ آتے تھے اور آپ سے مدد اور بخشش کی درخواست کرتے تھے اور ان کی حاجتیں پوری ہوتی تھیں۔ مثلا نقل ہوا ہے کہ ایک بدو عرب آپ کے پاس آیا اور کچھ اشعار سنائے اور ان میں آپ کو وسیلہ قرار دیا تاکہ اللہ بارش نازل کرے۔ اس کا آخری شعر یوں تھا: ہمارے پاس آپ کی طرف آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، پیغمبر خدا کے سوا لوگ اور کس کی طرف جا سکتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت غمزدہ ہوئے اور منبر جاکے بارش کی دعا فرمائی اور اس کے بعد بہت بارش ہوئی۔[3]

اسی طرح مسلمانوں اور علمائے دین کا طور طریقہ یہ رہا ہے کہ ائمہ علیہم السلام سے توسل کرتے تھے اور کرتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی جو مجلسیں ہوتی ہیں اور جلوس و ماتم برپا ہوتا ہے وہ سب اسی باب سے ہیں۔

عظیم معنوی شخصیات سے توسل

قرب الہی کے حصول اور حوائج دنیا تک پہنچنے کے لئے ان مومنین اور صالحین کو اللہ اور اپنے درمیان وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے جو اللہ کے نزدیک ایک خاص مقام و منزلت رکھتے تھے اور جنھوں نے دنیا میں نیک اور معنوی زندگی گزاری ہے۔ خدا کو ان کی عظیم روح کی قسم دی جا سکتی ہے تاکہ اللہ کی رحمت و مغفرت حاصل ہو سکے۔[4]


منابع

  1. طباطبائی، سید محمد حسین، تفسیر المیزان، ج۵، ص۳۳۳.
  2. یوسف/ ۹۷ و ۹۸.
  3. کشف الارتیاب، ص۳۱۰.
  4. حسینی نسب، سید رضا، شیعہ پاسخ می‌دہد، نشر مشعر، چاپ دوم، ص۱۴۴.