"دنیا کا خاتمہ (آرماجیڈن)" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی پاسخ سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 2 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 4: سطر 4:
{{پایان سوال}}
{{پایان سوال}}
{{پاسخ}}
{{پاسخ}}
{{درگاه|مهدویت}}
 
آخری زمانے، ایک نجات دینے والے شخص اور دنیا کے خاتمے وغیرہ جیسے موضوعات پر بہت سے لوگوں کی طرف سے بہت سی پیشن گوئیاں کی گئیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سی پیشن گوئیاں صحیح ثابت ہوئی ہیں لیکن اس دعوے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
آخری زمانے، ایک نجات دینے والے شخص اور دنیا کے خاتمے وغیرہ جیسے موضوعات پر بہت سے لوگوں کی طرف سے بہت سی پیشن گوئیاں کی گئیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سی پیشن گوئیاں صحیح ثابت ہوئی ہیں لیکن اس دعوے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔


سطر 27: سطر 27:
نتیجہ یہ ہے کہ سائنسدانوں کی پیشین گوئیاں فلکیات پر مبنی ہیں، اور بائبل برائے آرماجیڈون اور ان کی دنیا کے خاتمے کے بارے میں پیشین گوئیاں ہماری آیات اور روایات کے بالکل خلاف ہیں، اور اسلام فلکیات کو اس طرح قبول نہیں کرتا جس طرح ان کے پاس تھا۔
نتیجہ یہ ہے کہ سائنسدانوں کی پیشین گوئیاں فلکیات پر مبنی ہیں، اور بائبل برائے آرماجیڈون اور ان کی دنیا کے خاتمے کے بارے میں پیشین گوئیاں ہماری آیات اور روایات کے بالکل خلاف ہیں، اور اسلام فلکیات کو اس طرح قبول نہیں کرتا جس طرح ان کے پاس تھا۔
لہٰذا چونکہ ان پیشگوئیوں کی بنیاد غیر منطقی اور جھوٹی ہے اور ان میں سے بہت سی سچی نہیں ہوئی ہیں اس لیے ان پیشگوئیوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
لہٰذا چونکہ ان پیشگوئیوں کی بنیاد غیر منطقی اور جھوٹی ہے اور ان میں سے بہت سی سچی نہیں ہوئی ہیں اس لیے ان پیشگوئیوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
{{پایان پاسخ}}
{{پایان پاسخ}}
{{مطالعه بیشتر}}


==منابع==
{{پانویس}}


[[fa:پیشگویی‌ها در مورد آخرالزمان]]
[[fa:پیشگویی‌ها در مورد آخرالزمان]]

حالیہ نسخہ بمطابق 18:04، 17 مئی 2023ء

سؤال

دنیا کے خاتمے کے بارے میں نجومیوں اور دانشمندوں کی پیشنگوئی کے سلسلے میں اسلامی نظریہ کیا ہے؟


آخری زمانے، ایک نجات دینے والے شخص اور دنیا کے خاتمے وغیرہ جیسے موضوعات پر بہت سے لوگوں کی طرف سے بہت سی پیشن گوئیاں کی گئیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سی پیشن گوئیاں صحیح ثابت ہوئی ہیں لیکن اس دعوے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

دنیا کے خاتمے کا مسئلہ ایک غیبی امر ہے اور تمام لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ قرآن کی آیات میں علم غیب کو اللہ یا اس کے رسول یا آپ کے اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص سمجھا گیا ہے:

  • ﴿يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ؛ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹادیتا ہے یا برقر ار رکھتا ہے کہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے(رعد:۳۹)
  • ﴿إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۝۱وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ۝۲وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ۝۳؛ (1) جب چادر آفتاب کو لپیٹ دیا جائے گا (2) جب تارے گر پڑیں گے (3) جب پہاڑ حرکت میں آجائیں گے(تکویر:۱-۳)
﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا؛ وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے(جن:۲)

اسلام کے زاویہ نگاہ سے اللہ ہے جو ہر طرح کے غیب کا علم رکھتا ہے وہ بھی ایسا علم ہے جو اسی سے مخصوص ہے اور کوئی دوسرا اس سے آگاہ نہیں ہے البتہ آیت کے اگلے حصے میں کچھ استثناء رکھا گیا ہے؛ ﴿إِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِن رَّسُولٍ؛ مگر جس رسول کو پسند کرلے.[1]

بعض پیشنگوئیاں اگر واقع ہوئی ہوں تو چونکہ پیشن گوئیوں کی بنیادیں اور اصول ہی اسلام کی نظر میں باطل ہیں اور دوسری طرف بہت سی پیشنگوئیاں سچ بھی ثابت نہیں ہوئی ہیں لہذا اسلام ان پر کسی بھی طرح کی مہر تصدیق نہیں لگاتا ہے۔

شیخ انصاری کا نظریہ تھا: «علم نجوم اور علم ہیئت کے علماء کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں اسی وجہ سے علم ہیئت کے قابل اعتماد علماء کی معلومات پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے، ناقابل اعتماد اور فاسق کی تو بات ہی الگ ہے۔ کیونکہ ان کے محاسبات کچھ نظری امور کے اوپر مبنی ہیں اور وہ امور نظری خود دوسرے نظریات کے اوپر مبنی ہیں».[2]

اس کے علاوہ ان کی دلیلوں کی بنیادیں بھی بےوقعت ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہے،[3]

کیونکہ وہ ایک تو وہ معمولا زیادہ تیز اور چالاک ہونے کے سبب اپنی تیزی اور چالاکی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ شیاطین اور جنات سے رابطہ برقرار کرتے ہیں:[4] اور وہ خود اس کے دعویدار ہیں کہ شیاطین سے رابطہ میں ہیں اور ان سے معلومات لیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ بعض اوقات جھوٹ، جیسا کہ بائبل میں بیانات ہیں، عیسائیوں کی نظر میں پیشین گوئی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ سائنسدانوں کی پیشین گوئیاں فلکیات پر مبنی ہیں، اور بائبل برائے آرماجیڈون اور ان کی دنیا کے خاتمے کے بارے میں پیشین گوئیاں ہماری آیات اور روایات کے بالکل خلاف ہیں، اور اسلام فلکیات کو اس طرح قبول نہیں کرتا جس طرح ان کے پاس تھا۔ لہٰذا چونکہ ان پیشگوئیوں کی بنیاد غیر منطقی اور جھوٹی ہے اور ان میں سے بہت سی سچی نہیں ہوئی ہیں اس لیے ان پیشگوئیوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔


منابع

  1. طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان، ترجمه موسوی همدانی، سید محمد باقر، ج۲۰، ص۳۴۷.
  2. انصاری، مرتضی مکاسب محرمه (۵ جلدی)، قم، انتشارات مجمع الفکر السلامی، چاپ یازدهم، ج۱، ص۲۰۳ و ۲۰۴.
  3. مکارم شیرازی، ناصر، سوگندهای پربار قرآن، قم، انتشارات امیر المؤمنین علی(ع)، چاپ اول، ص۳۵۱.
  4. جعفری، بهزاد، متن و ترجمه کتاب احتجاج، ج۲، ص۲۱۲.