"تکبر کیا ہے؟" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی پاسخ سے
(«تکبر کیا ہے؟ '''تکبر''' یا '''غرور'''، اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں بڑا سمجھنا اور دوسروں کو اپنی گفتگو یا رویے سے نیچا دکھانا ہے۔ اپنے اندر حقارت اور ذلت کا احساس اور شیطان کا انسان پر غلبہ، تکبر کے عوامل میں سے شمار کیا گیا ہے۔ نیز تکب...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
سطر 52: سطر 52:
* [[تواضع]]؛<ref>شفیعی، محمد، پرورش روح در پرتو چهل حدیث، دفتر تبلیغات اسلامی، ج۱، ص۴۹۱.</ref>
* [[تواضع]]؛<ref>شفیعی، محمد، پرورش روح در پرتو چهل حدیث، دفتر تبلیغات اسلامی، ج۱، ص۴۹۱.</ref>
* [[تکبر کے نتائج]] پر توجہ؛
* [[تکبر کے نتائج]] پر توجہ؛
* [عزت نفس کو مضبوط بنانا]].
* عزت نفس کو مضبوط بنانا.
{{اختتام}}
{{اختتام}}



نسخہ بمطابق 21:34، 21 دسمبر 2024ء

تکبر کیا ہے؟

تکبر یا غرور، اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں بڑا سمجھنا اور دوسروں کو اپنی گفتگو یا رویے سے نیچا دکھانا ہے۔

اپنے اندر حقارت اور ذلت کا احساس اور شیطان کا انسان پر غلبہ، تکبر کے عوامل میں سے شمار کیا گیا ہے۔ نیز تکبر کے علاج کے لئے خودشناسی، موت کو یاد رکھنا اور عزت نفس کو مضبوط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

خدا کے سامنے غرور کو تکبر کی بدترین قسم جانا گیا ہے۔ بعض اوقات انبیاء اور اولیاء الہی کے مقابل تکبر کیا جاتا ہے، اس طرح کہ انسان اپنے آپ کو ان سے برتر سمجھتا ہے اور ان کی اطاعت نہیں کرتا۔

معنی کی وضاحت

«کِبْر» خود کو دوسروں کے مقابلے میں بڑا سمجھنا [1] اور «تکبر» اسی کو گفتگو اور رویے میں ظاہر کرنا ہے؛ جب تک خود کو برتر سمجھنے کا احساس انسان کے اندر ہی موجود ہو اور وہ اسے ظاہر نہ کرے، تو اسے کبر کہتے ہیں، اور جب یہ سوچ ظاہر ہو جائے اور انسان اپنے طرز عمل یا گفتگو کے ذریعہ دوسروں کو حقیر سمجھے، تو اسے تکبر کہتے ہیں۔ [2]

فارسی زبان میں دو الفاظ «غرور» اور «تکبر»، مترادف اور ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں؛ اگرچہ عربی زبان میں لفظ غرور دھوکہ دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ تکبر کے معنی سے مختلف ہے۔

تکبر اور عُجب میں فرق

عُجْب اور خودبینی کا مطلب خودپسندی ہے۔ [3] خودپسند انسان، اپنے کو بڑا دکھاتا ہے؛ لیکن خود کو دوسروں سے بڑا نہیں پاتا؛[4] یا یہ کہ متکبر اپنے آپ کو برتر اور دوسروں کو چھوٹا سمجھتا ہے۔[5]

انسان اور خدا میں تکبر کا فرق

سانچہ:یہ بھی ملاحظہ کیجئے

خدا اور انسان میں تکبر کی صفت میں فرق، اس کے سرچشمہ میں فرق کی وجہ سے ہے؛ خدا میں تکبر کا سرچشمہ، علم، قدرت اور حکمت ہے؛ لیکن انسانی تکبر کا سرچشمہ، حقارت، نادانی اور قوت ارادی کی کمزوری ہے۔ امام صادق(ع) کی ایک روایت کے مطابق انسان میں تکبر کا سبب وہ پستی اور ذلت ہے جو وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ [6] انسان اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے غرور کرتا ہے اور ایسے منصب کا دعوی کرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے۔

اہمیت

قرآن میں تکبر اور متکبر شخص کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، اس آیت میں ﴿کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللَّهُ عَلَیٰ کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّار(غافر:۳۵) متکبر انسان کی جانب اشارہ ہے۔ اسی طرح سوره بقره کی آیت ۳۴ میں بھی، ابلیس کے تکبر کی جانب اشارہ ہے، جب کہ خداوند متعال نے اسے حکم دیا کہ حضرت آدم(ع) کو سجدہ کرے۔

تکبر کو وہ پہلا گناه جانا گیا ہے جو دنیا میں واقع ہوا ہے۔ امیرالمومنین حضرت امام علی(ع)، خطبہ قاصعہ میں فرماتے ہیں کہ: ابلیس کا تکبر سبب بنا، کہ اس کی چھ ہزار سال کی عبادتیں ضائع ہوجائیں۔ [7] ایک دوسری روایت میں، تکبر کو بہت بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے۔ [8]

اقسام

تکبر کی کئی قسمیں ہیں:

  • خدا کی نسبت تکبر: کبھی کبھی تکبر خدا کے مقابل ہوتا ہے۔ [9] اس معنی میں کہ انسان خدا کی بندگی کا اقرار نہ کرے اور عبادت کو خدا سے مخصوص نہ جانے۔ جیسے کہ وہ تکبر جو نمرود اور فرعون نے انجام دیا۔ اس تکبر کا سبب، بغاوت اور جهالت کو جانا گیا ہے اور اسے تکبر کی سب سے بڑی صورت شمار کیا گیا ہے۔ [10]
  • پیمبروں اور اولیاء دین کی نسبت تکبر: کبھی کبھی تکبر انبیاء اور اولیاء کے مقابل ہوتا ہے، اس طرح سے کہ انسان اپنے آپ کو ان سے برتر سمجھتا ہے اور ان کی اطاعت نہیں کرتا۔ آیت کریمہ میں ﴿فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُون(مؤمنون:۴۷) اس قسم کے تکبر کی جانب اشارہ ہے۔
  • اللہ کے بندوں کے مقابل تکبر: کبھی کبھی تکبر مومنین اور اللہ کے بندوں کے مقابل ہوتا ہے؛ اس معنی میں کہ انسان خود کو بڑا سمجھے اور دوسروں کو حقیر جانے۔ [11] اس قسم کا تکبر، کیونکہ خدا کی مخالفت کا باعث بنتا ہے، لہذا انسان کو ہلاکت میں ڈالنے والی صفات میں اس کا شمار کیا جاتا ہے۔ [12]

عوامل

سانچہ:حقیقی شخصیت میں خرابی، اپنی کمزوریوں سے ناواقفیت اور شیطان کا انسان پر غلبہ؛ تکبر کے عوامل میں شمار کئے جاتے ہیں۔ نیز احساس حقارت اور ذلت، شخصیت کے ان عوارض میں سے ہیں کہ جن کے باعث انسان تکبر میں مبتلا ہوتا ہے۔

علاج

سانچہ:حقیقی تکبر کے علاج کے لئے مختلف طریقے بیان ہوئے ہیں، جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: سانچہ:کالم۲

سانچہ:اختتام

اپنے ضعف، فقر اور محتاجی کو پہچاننا، خاص طور پر پیدائش اور موت کے وقت، انسان میں تکبر کو ختم کر دیتا ہے۔ [17] عبادت، جو کہ خدا کے سامنے عاجزی اور فروتنی ہے، انسان میں تکبر کے احساس کو کمزور بنادیتی ہے۔[15]

تکبر کے عوامل میں سے ایک عامل، اپنے اندر ذلت کا احساس ہے، اور اس بیماری کے علاج کے لئے، عزت نفس کو مضبوط بنانا موثر جانا گیا ہے۔

عورتوں کے لئے تکبر کا حکم

سانچہ:حقیقی

امام علی علیہ السلام کی ایک روایت میں نامحرم کے سامنے عورت کے تکبر کرنے کو اچھا سمجھا گیا ہے۔ اور روایات کے مطابق اس حکم کی وجہ، نامحرم کے سامنے عورت کی عزت و کرامت کی حفاظت اور ممکنہ خطرات سے اسے بچانا ہے۔ [18] عورت کے تکبر کرنے کا مطلب، نامحرم کو حقیر سمجھنا نہیں ہے؛ بلکہ عورت اس کے سامنے تکبر دکھا کر، خود کو اس کی لذتوں کا سامان بننے سے بچاتی ہے۔

لہذا تکبر یعنی «دوسروں کو حقیر سمجھنا»، اس معنی میں تکبر کسی بھی مرد یا عورت کے لئے جائز نہیں ہے اور اس کا شمار گناه میں ہوتا ہے۔

منابع

  1. راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، تہران، نشر کتاب، ۱۴۰۴ ہ۔ق۔، ص۴۲۱ و ۴۲۲؛ علم اخلاق اسلامی، ترجمه جامع السعادات، حکمت پبلیکیشنز، تیسرا ایڈیشن، ۱۳۶۳ہ۔ش۔، پہلی جلد، ص۴۱۷.
  2. نراقی، ملا احمد، معراج السعاده، مشهد، ندای اسلامی پبلیکیشنز، پہلا ایڈیشن، ۱۳۶۲ہ۔ش۔، ص۱۷۶.
  3. امام خمینی، سید روح الله، شرح چهل حدیث، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی رح، دوسرا ایدیشن، ۱۳۷۱ہ۔ش۔، ص۷۹۔
  4. نراقی، ملامحمد مهدی، جامع السعادات، تعلیقہ اور تصحیح سید محمد کلانتر، مطبعه النجف، مؤسسه مطبوعاتی اسماعیلیان، ج۱، ص۳۴۴–۳۵۱.
  5. امام خمینی، سید روح الله، شرح چهل حدیث، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی رح، دوسرا ایڈیشن، ۱۳۷۱ہ۔ش۔، ص۷۹.
  6. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ترجمه و شرح سید جواد مصطفوی، ج۳، باب کبر۔
  7. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، دار احیاء الکتب العربیه، دوسرا ایڈیشن، ج۱۳، ص۱۲۷۔
  8. شفیعی، محمد، پرورش روح در پرتو چهل حدیث، دفتر تبلیغات اسلامی، پہلا ایڈیشن، ۱۳۷۰ہ۔ش۔، ج۱، ص۲۸۰۔
  9. دستغیب، سید عبدالحسین، گناهان کبیره، آرمان پبلیکیشنز، ج۲، ص۱۱۱–۱۳۲۔
  10. راغب اصفهانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، تهران، کتاب پبلیکیشنز، ۱۴۰۴ہ۔ق۔، ص۴۲۱ و ۴۲۲.
  11. نراقی، احمد، معراج السعاده، ص۱۷۸.
  12. علم اخلاق اسلامی، ترجمہ جامع السعادات، حکمت پبلیکیشنز، تیسرا ایڈیشن سوم، ۱۳۶۳ہ۔ش۔، پہلی جلد، ص ۴۱۷۔
  13. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، ج۷۸، ص۹۴.
  14. شفیعی، محمد، پرورش روح در پرتو چهل حدیث، دفتر تبلیغات اسلامی، پہلا ایڈیشن، ۱۳۷۰ہ۔ش۔، ج۱، ص۴۹۱.
  15. 15.0 15.1 محمدی ری شهری، محمد، میزان الحکمه، دارالحدیث، پہلا ایڈیشن، ج۳، ص۲۶۵۷؛ شفیعی، محمد، پرورش روح در پرتو چهل حدیث، دفتر تبلیغات اسلامی، پہلا ایڈیشن، ۱۳۷۰ش، ج۱، ص۴۹۲.
  16. شفیعی، محمد، پرورش روح در پرتو چهل حدیث، دفتر تبلیغات اسلامی، ج۱، ص۴۹۱.
  17. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، ج۷۸، ص۹۴.
  18. محمدی ری شهری، محمد، منتخب الحکمه، مترجم: حمیدرضا شیخی، قم، دارالحدیث، ۱۳۸۲ہ۔ش۔، جلد ۲، ص۹۱۰.