قرآن کے ظاہری معنی پر اکتفا کرنا

سانچہ:نیازمند گسترش

  1. تغییر_مسیر الگو:پاسخ
سؤال

کیا ہم قرآن کے ظاہری معنی پر اکتفا کر سکتے ہیں؟

قرآن کے ظاہری معنی سمجھنے کے لئے کچھ شرائط ضروری ہیں، جیسے عربی زبان پر مہارت، سیاق و سباق اور قرائن کو مدنظر رکھنا، محکم (محکمات) اور متشابہ (متشابہات) آیات کا علم ہونا۔ عمومی طور پر، قرآن کی آیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: محکم آیات (محکمات)، جن کی تاویل کی ضرورت نہیں ہوتی، اور متشابہ آیات (متشابہات)، جن کی تاویل محکم آیات کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔ لہذا اگر ظاہری معنی سے مراد باطنی معنی کے مقابل معنی ہیں، تو قرآن کے ظواہر حجت ہیں۔ لیکن اگر "ظاہری معنی" سے مراد، کسی آیت کو سیاق و سباق اور آیت کی تفہیم کے قرائن اور اصولوں سے الگ کرکے سمجھنا مراد ہے، تو کسی بھی صورت ظاہری معنی پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا۔

قرآنی آیات میں ظاہری معنی سے تمسک کرنا

قرآنی آیات ایک عمومی تقسیم کے تحت دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں:

  • محکم آیات (محکمات) جو کسی تاویل کی محتاج نہیں ہیں۔
  • متشابہ آیات (متشابہات) جو تاویل کی محتاج ہیں، یعنی انہیں محکم آیات کی روشنی میں سمجھا جانا چاہیے جو کہ (اُمُّ الکتاب) کا درجہ رکھتی ہیں.[1]

اگر ظاہری معنی سے مراد باطنی معنی کے مقابل معنی ہیں، تو قرآن کے ظواہر پر اکتفا کیا جاسکتا ہے اور ظواہر قرآن حجت ہیں، کیونکہ قرآن کے باطنی معنی کو صرف معصومین (ع) ہی سمجھ سکتے ہیں۔[2] اور یہ کہ قرآن باطنی معنی اور بطون رکھتا ہے اس کا ذکر متعدد حدیثوں میں ہوا ہے۔ امام علی (علیہ السلام) نے فرمایا:

«قرآن کا ایک خوبصورت ظاہر اور ایک عمیق و گہرا باطن ہے، اس کے عجائبات بے شمار ہیں اور اس کے پوشیدہ راز کبھی ختم نہیں ہوتے۔»[3]
  • جابر بن عبداللہ انصاری نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے ایک آیت کی تفسیر دریافت کی؟ امام نے جواب دیا، جابر نے دوبارہ اسی آیت کے بارے میں سوال کیا، تو امام نے دوسرے انداز میں جواب دیا۔ جابر نے کہا: "آپ نے پہلے مجھے ایک دوسرا جواب دیا تھا۔" امام نے فرمایا: «جابر! قرآن کا ایک باطنی معنی ہے اور اس باطنی معنی کا بھی ایک اور باطنی معنی ہے، اور حتیٰ کہ ظاہری معنی کے بھی مراتب ہیں۔ اے جابر! قرآن کی کوئی بھی چیز انسانی عقل سے تفسیر نہیں کی جاسکتی؛ کیونکہ ممکن ہے کسی آیت کا آغاز ایک موضوع سے متعلق ہو جب کہ اس کا آخر دوسرے موضوع سے متعلق ہو، قرآن ایک مسلسل خطاب ہے جو مختلف پہلو رکھتا ہے۔».[4]

آیات کے ظاہری معنی پر اکتفا کرنے کی شرائط

اگر "ظاہری معنی پر اکتفا کرنے" سے مراد، آیات کو سیاق و سباق اور قرائن کے بغیر سمجھنا مراد ہو، تو ظاہری معنی پر اکتفا کرنا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ آیات کے معنی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف عربی زبان کے قواعد پر عبور حاصل ہو اور قرآن کی زبان کو گہرائی سے سمجھا جائے، بلکہ سیاق و سباق اور قرائن یعنی دوسری آیات و روایات پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ یہ بات حتی کہ ان آیات کے لیے بھی ضروری ہے جن کے ظاہری معنی واضح اور روشن ہیں اور ان کا شمار محکم آیات میں ہوتا ہے، کیونکہ قرآنی آیات ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور بعض آیات دوسری آیات کے لئے قرینہ (ان کو سمجھنے کا ذریعہ) بنتی ہیں۔

اسی طرح پیغمبر اکرم (صلى الله عليه و آلہ و سلم) کی حدیثوں اور آپ کی پیروی میں آپ کے بعد ائمہ اہلبیت (علیہم السلام) کی حدیثوں کو بھی جو کہ قرآن کی تفسیر کرنے والی اور وضاحت دینی والی ہیں، ان کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ قرآن خود کہتا ہے: ﴿«ہم نے آپ پر الذکر (قرآن مجید) اس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے (وہ معارف و احکام) کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔[5]

لیکن متشابہ آیات میں، آیات کے ظاہری معنی پر کسی بھی صورت اکتفا کرنا صحیح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آیت مبارکہ ﴿وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا[6] کے ظاہر سے ایسا لگتا ہے کہ خداوند متعال آیا اور فرشتے صف در صف حاضر ہو گئے۔ یا آیت کریمہ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی[7] کے ظاہر سے ایسا لگتا ہے کہ خداوند متعال عرش پر بیٹھا ہوا ہے۔

ان آیات اور اس جیسی دوسری متشابہ آیات کو محکم آیات جیسے کہ یہ آیت کریمہ ﴿... لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیْءٌ وَهُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ[8] کی روشنی میں سمجھنا اور تفسیر کرنا ضروری ہے، پس خدا کے آنے سے مراد، امر خدا کا آنا مراد ہے، اور «استوی» سے مراد، خدا کا تسلط ہے، اور اگر ان آیات کے صرف ظاہری معنی پر اکتفا کیا جائے، تو اس کا لازمہ خدا کی جسمانیت ہے۔

وہابی ان آیات کے صرف ظاہری معنی پر اکتفا کرتے ہوئے اور ان آیات کو سمجھنے کے لئے محکم آیات پر توجہ کئے بغیر اور عقلی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ:

«اللہ کے لئے ایک سمت اور مکان ہے، اور وہ آسمانوں کے اوپر عرش پر بیٹھا ہوا ہے۔ اللہ کے حقیقی ہاتھ اور آنکھیں ہیں۔»[9] وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ «اللہ ہر رات زمین پر اترتا ہے اور صبح دوبارہ واپس چلا جاتا ہے۔»[10] حتی کہ ابن تیمیہ بھی کھلے طور پر کہتا ہے:
«قرآن، سنت، اور اجماع میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ملتی جو اللہ کی جسمانیت یا تشبیہ کو رد کرتی ہو۔»[11] ایسے ہی عقائد، حنبلیوں، حشویہ اور اباضیہ فرقے کے بھی ہیں۔[12]

حوالہ جات

  1. آیه ۷ سوره آل عمران.
  2. واقعه/ ۷۹.
  3. نهج‌البلاغه، ترجمه محمد دشتی، خطبه ۱۸، ص۶۴.
  4. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ج۸۹، ص۹۱ و ص۹۴ و ۹۵.
  5. نحل/ ۴۴.
  6. فجر/ ۲۲.
  7. طه/ ۵.
  8. شوری / ۱۱.
  9. ابن حجر عسقلانی، الدر الکاهنه، بیروت، ص۱۴۵؛ احمد بن زینی چلان مفتی مکه، سرگذشت وهابیّت، ترجمه ابراهیم وحید دامغانی، نشر گلستان کوثر، چاپ اوّل، ۱۳۷۶، ص۱۶.
  10. عمر عبدالسلام، مخالف الوهابیّه للقرآن و السنه، دارالهدایه، چاپ اوّل، ۱۴۱۶، ص۸.
  11. ابن تیمیّه، الفتاوی الکبری، بیروت، دارالمعرفه، ص۲۳–۲۱.
  12. سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، لجنه اِداره الحوزه العلمیه، چاپ دوّم، ۱۴۱۵، ج۲، ص۲۴۷.