حضرت مریم سلام اللہ علیہا

نظرثانی بتاریخ 19:00، 22 دسمبر 2024ء از Ejazhmusavi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{شروع متن}} {{سوال}} حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا کیا مقام و مرتبہ تھا؟ {{پایان سوال}} {{پاسخ}} '''حضرت مریم سلام اللہ علیہا''' وہ واحد خاتون ہیں جن کا قرآن میں ذکر کیا گیا ہے اور تمام مومنین کے لیے رول ماڈل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے۔ قرآنی آیات کے مطا...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
سؤال

حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا کیا مقام و مرتبہ تھا؟

حضرت مریم سلام اللہ علیہا وہ واحد خاتون ہیں جن کا قرآن میں ذکر کیا گیا ہے اور تمام مومنین کے لیے رول ماڈل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق، حضرت مریم (س) بڑے بلند درجہ پر فائز تھیں جیسے خدا کی طرف سے منتخب ہونا. صدیقہ (انتہائی سچی)، طاھرہ ،عفیفہ (پاکیزگی)اور فرشتوں سے بات کرنے جیسے عہدے ہیں۔ کچھ مسلمان علماء دین، حضرت مریم علیہا السلام کی نبوت پر یقین رکھتے تھے۔

اپنی والدہ کی نذرکے مطابق، مریم (س) کو خدا کی خدمت اور عبادت کے لیے بیت المقدس لے جایا گیا۔ عبادتگاہ کے پجاریوں میں مریم کی سرپرستی پر جھگڑا ہوا۔ انہوں نے جھگڑا طے کرنے کے لیے قرعہ ڈالا اور قرعہ زکریا (ع) کے نام نکل آیا اور وہ مریم (س) کے ولی بن گئے۔ حضرت مریم (س) بیت المقدس کے مشرقی حصے میں عبادت کرتی تھیں۔ مریم (س) لوگوں کے درمیان تقویٰ کے لیے مشہور تھیں۔ قرآنی آیات کے مطابق زکریا (علیہ السلام) نے مریم کے ساتھ کھانا دیکھا اور ان سے ـ ان کے کھانے کے بھیجنے والے کے بارے میں پوچھا۔ جواب میں مریم (س)نے کہا یہ خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی نعمتیں ہیں۔

قرآنی آیات اور احادیث سے روشن ہوتا ہے کہ حضرت مریم (س) نارمل طریقے سے حاملہ نہیں ہوئیں تھیں۔ قرآن ان کے حمل کی مدت کے بارے میں کچھ نہیں کہتاہے۔ کچھ مفسرین کے مطابق حضرت مریم (س) کے حمل کی مدت دوسری عورتوں کی طرح نو ماہ تھی۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ مریم کے حمل کی مدت معجزانہ تھی۔ وہ اس مدت کو ایک گھنٹہ سمجھتے تھے۔

حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا مقام و مرتبہ

سانچہ:نوشتار اصلی

قرآن نے تمام مومنین کے لیے مریم (س) کو نمونہ عمل کے طور پر تعارف کرایا ہے: «اور خدا نے عمران کی بیٹی مریم کیو ایمان لانے والوں کے لئے ایک مثال(نمونہ عمل) دی جنہوں نے اپنے کردار کو(گناہوں) سے محفوظ رکھا۔[1] سورہ آل عمران کی آیت نمبر 42 میں حضرت مریم (س)کے لیے اصطفاء اور طاھرہ جیسے مقامات بیان کیے گیےہیں۔

«يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِين ؛ (فرشتے): اے مریم، خدا نے تمہیں چن لیا، پاکیزہ رکھا اورپوری دنیا کی عورتوں پر فضیلت دی ہے.»۔[2]

قرآن میں سوائے حضرت مریم (س) کے کسی عورت کا نام نہیں لیا گیاہے۔ قرآنی آیات کےمطابق فرشتے ،مریم (س)سے بات کرتے تھے۔[3] دو آیتوں میں ـ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (س) کی عفت و پاکیزگی کو واضح، بیان فرمایا ہے۔[4] اسی طرح، ان کا تعارف صدیقہ[5] کے طور پر کراتا ہے، قرآن میں خداوند متعال، مریم (س) کو عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے[6] اور انہیں «قانتین» میں شمار کرتا ہے۔[7] مفسرین نے قانتین کی تعریف ان لوگوں سے کی ہے جوہمیشہ خدا کی اطاعت میں مشغول رہتے ہیں۔[8]

ساتویں صدی (قمری تقویم)کے مفسر محمد بن احمد قرطبی[9]، اور تقی الدین سبکی[10]، جوآٹھویں صدی کے سنی فقہاء اور محدث علماء میں سے ایک ہیں، حضرت مریم (س) کی نبوت پر یقین رکھتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ـدوسرے انبیاء کی طرح فرشتے کے ذریعےان پربھی وحی نازل ہوتی تھی۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 42 میں مریم کی نمایاں خصوصیات کو یہ لوگ ان کی نبوت پر دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔[11] عرفانی دنیاں میں، حضرت مریم (س) کو خدا کے اولیاء میں سے ایک ولی کے طور پر مانا جاتا ہے اور انہیں ولایت خاصہ (خصوصی ولایت) کے مقام پر فائز جانا جاتا ہے۔[12]

سوانح حیات

قرآن، بائبل کے بر خلاف، حضرت مریم (ص) کی پیدائش سے پہلے کے حالات کو بیان کرتا ہے۔[13] مریم کی والدہ کے پیٹ میں بچہ تھا اور ان کا خیال تھا کہ ان کے یہاں لڑکا ہوگا۔[14] انھوں نے اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں وقف کرنے کی قسم کھائی تھی۔[15] بچہ ـ ماں کے خیال کے برعکس بیٹی ہوئی۔ تاہم ماں اپنی نذر پر قائم رہیں۔[16] بچی کا نام مریم رکھا گیا۔ نذرکے مطابق، مریم (س) کو بیت المقدس میں خدمت کرنے اور خدا کی عبادت کرنے کے لیے لے جایا گیا۔[17] بنی اسرائیل کے علماء اور بزرگوں سے کہا گیا کہ وہ اس کے کی ذمہ داری لیں۔[18] مریم (س)چونکہ عمران کی اولادسے تھیں کہ جس کا تعلق ایک شریف خاندان سے تھا۔ اسی وجہ سے مریم کی سرپرستی کےدعویداروں میں ان کی سرپرستی کو لے کر جھگڑا ہونے لگا۔ قرعہ اندازی میں، زکریاعلیہ السلام ـ جن کی اس وقت کوئی اولاد نہیں تھی، کو مریم (س) کی سرپرستی کے لیے چنا گیا۔[19]

حضرت مریم (س) بیت المقدس کے مشرقی حصے میں عبادت کرتی تھیں۔[20] مریم (س) لوگوں میں تقویٰ کے لیے مشہور تھیں۔[21] قرآنی آیات کے مطابق زکریا (علیہ السلام) نے مریم (س) کے ساتھ کھانا دیکھا اور ان کے بارے میں پوچھا۔ مریم (س) نے کہا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔[22]

حضرت مریم کا حاملہ ہونا اورحضرت عیسیٰ کی پیدائش

سانچہ:اہم مضامین قرآنی آیات اور احادیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مریم (س) نارملی طریقے سے حاملہ نہیں ہوئیں تھیں۔[23] قرآن میں حضرت مریم (س) کے حاملہ ہونے کے طریقے کا تذکرہ «فانفخنا» (ہم نےروح کو ڈالا)[24] کے ساتھ کیا ہے اور حضرت آدم (ع) کی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تخلیق کو ایک معجزہ قرار دیا ہے۔[25]

مریم (س) کی حاملگی کا وعدہ ان کو ایک ہستی نے دیا تھا، جسے قرآن نے «روح» کہا ہے۔[26] مفسرین نے روح کو جبرائیل (علیہ السلام) سمجھا ہے۔[27]

قرآن میں مریم کے حمل کی مدت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔[28] بعض مفسرین کی رائے کے مطابق مریم کے حاملہ ہونے کی مدت دوسری عورتوں کی طرح نو ماہ تھی۔[29] ان لوگوں کا خیال ہے کہ خدا اس واقعہ میں مریم (س) کی تعریف کرنا چاہتا تھا اور اگر مریم (س) کا حمل معجزانہ تھا تو ان آیات میں اس کا ذکر ہونا چاہئے تھا۔[30]

ایک گروہ کا خیال ہے کہ مریم کا حمل بھی معجزانہ تھا۔[31] ان کا کہنا تھا کہ ان کے حاملہ ہونے کا وقت ایک گھنٹہ تھا۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ان آیات میں حضرت مریم کے حمل کی کہانی کے فوراً بعد فا کا استعمال کیا گیا ہے اور فاء تعقیب اور جلدی کسی کام کے کرنے کے معنی میں آتا ہے، ان کے حمل کا قصہ مختصر اور معجزانہ تھا۔[32] کچھ حدیثیں اس بات کی تائید کرتی ہیں۔[33]

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے بعد حضرت مریم (س) اپنی قوم کی طرف واپس آگئیں۔[34] انھوں نے حکم خدا کی بناء پر خاموشی کا روزہ رکھ لیا تھا۔[35] مریم( س) پر بنی اسرائیل کی طرف سے بد کرداری کا الزام لگایا گیا کہ انہوں نے بغیر باپ کے بچے کو جنم دیا۔[36] خدا نے اس الزام کو دور کرنے کے لیے بچے کو گویائی عطا کردی۔[37] بچہ نے اپنا تعارف کرایا اور اپنی ماں کی پاکیزگی کا دفاع کیا۔[38]

حضرت مریم( س) کا موت کی تمنا کرنا

سانچہ:اہم مضامین قرآنی آیات کے مطابق، حضرت مریم (س) نے ولادت کے مشکل حالات میں مرنے کی خواہش کی[39] «کاش میں اس سے پہلے مر جاتی اور میرا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا۔».[40] دور معاصر کے شیعہ مفسر، محمد جواد مغنیہ صاحب کا ماننا ہے کہ مشکل میں پڑنے والے ہر شخص کے لیے اس قسم کی تعبیرات کا اظہار کرنا فطری امر ہے اور جب تک ایسی باتوں کے کرنے سےـ دین میں شک و شبہ نہ پیش آے ـ تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔[41] مذہب قرآن نے صرف مریم (س) کے کلام کو بیان کیا ہے اور ان کے تمنائےموت کے سبب کو نہیں بیان کیا ہے۔[42] مفسرین نے مریم کی اس خواہش کی وجوہات درج کی ہیں[43]:

  • مریم علیہا السلام بنی اسرائیل میں زہد کے لیے مشہور تھیں۔ یہاں تک کہ خدا وند متعال ان کےلئے جنتی کھانے بھیجتا تھا۔ ان کی جو سماجی حیثیت تھی اس کے باعث وہ بغیر شوہر کے بچہ پیدا کرنے[44] سے ڈر رہی تھیں اور اپنے لوگوں کی تہمت سے خوف زدہ تھیں۔[45]
  • حضرت مریم (س) ہمیشہ دنیا اور اس کےچکرات سے آزاد ہو کر نماز میں مصروف رہتی تھیں۔ وہ ـ اس وقت تک زندگی کی مشکل ذمہ داریوں سے آزاد تھیں، اچانک حاملہ ہو گئی اور زچگی کا وقت بھی آگیا۔ اس وقت احساس تنہائی اور بیچارگی کی وجہ سے موت کی تمنا کرنے لگی۔[46]

حوالہ جات

  1. سوره تحریم: 12-11
  2. سوره آل عمران: 42
  3. سورهٔ آل‌عمران، آیات ۴۲-۴۳.
  4. سورهٔ تحریم، آیهٔ ۱۲؛ نیز: سورهٔ انبیاء، آیهٔ ۹۱.
  5. سورهٔ مائده، آیهٔ ۷۵.
  6. سورهٔ آل‌عمران، آیهٔ ۴۳.
  7. سورهٔ تحریم، آیهٔ ۱۲.
  8. تفسير احسن الحديث، علی‌اکبر قرشی، ج ۱۱، ص ۲۴۵.
  9. قرطبی، الجامع لأحكام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج ۴، ص ۸۳.
  10. آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج ۲، ص ۱۴۹.
  11. آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج ۲، ص ۱۴۹.
  12. بازتاب مقامات حضرت مریم(س) در متون عرفانی فارسی از قرن چهارم تا پایان قرن نهم، طاهره خوشحال دستجردی و زینب رضاپور، مجلهٔ علمی پژوهشی مطالعات عرفانی، شمارهٔ دوازدهم، ۱۳۸۹.
  13. سورهٔ آل‌عمران، آیهٔ ۳۵.
  14. تفسير نمونه، ج۲، ص۵۲۳.
  15. سورهٔ آل‌عمران، آیهٔ ۳۵.
  16. سورهٔ آل‌عمران، آیهٔ ۳۵.
  17. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج ۲، ص ۵۴۴، دارالکتب الإسلامیة، تهران، چاپ اول، ۱۳۷۴ش.
  18. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج ۲، ص ۵۴۴، دارالکتب الإسلامیة، تهران، چاپ اول، ۱۳۷۴ش.
  19. سورهٔ آل‌عمران، آیهٔ ۴۴.
  20. سورهٔ مریم، آیهٔ ۱۶.
  21. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج ۱۳، ص ۴۱.
  22. سورهٔ آل‌عمران، آیهٔ ۳۷.
  23. طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسير القرآن، ۱۳۷۲ش، ج ۶، ص ۷۸۹.
  24. سورهٔ تحریم، آیهٔ ۱۲.
  25. سورهٔ آل‌عمران، آیهٔ ۵۹.
  26. سورهٔ مریم، آیهٔ ۱۷.
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج ۱۳، ص ۳۶.
  28. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج‏ ۱۳، ص ۴۰، تهران، دارالکتب الإسلامیة، ۱۳۷۴ش.
  29. ابن‌کثیر دمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج ۵، ص ۱۹۶، بیروت، دارالکتب العلمیة، منشورات محمد علی بیضون، ۱۴۱۹ق.
  30. ابن‌کثیر دمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج ۵، ص ۱۹۶، بیروت، دارالکتب العلمیة، منشورات محمد علی بیضون، ۱۴۱۹ق.
  31. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۴، ص ۲۲۵، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۱۰ق.
  32. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۴، ص ۲۲۵، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۱۰ق.
  33. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۴، ص ۲۲۵، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۱۰ق.
  34. سورهٔ مریم، آیهٔ ۲۷.
  35. سورهٔ مریم، آیهٔ ۲۶.
  36. سورهٔ مریم، آیات ۲۷-۲۸.
  37. سورهٔ مریم، آیات ۳۰- ۳۳.
  38. تفسير نمونه، ج ‏۱۳، ص ۴۵.
  39. طیب، اطيب البيان في تفسير القرآن، ج۸، ص ۴۳۱، تهران، اسلام، ۱۳۷۸ش.
  40. سوره مریم: 23
  41. مغنیه، تفسیر الکاشف، ج ۵، ص ۱۷۷، تهران، دارالکتب الإسلامیة، ۱۴۲۴ق.
  42. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ج ۲۱، ص ۵۲۵، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
  43. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج ۱۳، ص ۴۱، تهران، دارالکتب الإسلامیة، ۱۳۷۴ش.
  44. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ج ۲۱، ص ۵۲۵، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
  45. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج ۱۳، ص ۴۱، تهران، دارالکتب الإسلامیة، ۱۳۷۴ش.
  46. مدرسی، محمدتقی، من هدی القرآن، ج ۷، ص۳۲ ، تهران، دار محبی‌ الحسین، ۱۴۱۹ق.