قرض دینے پر اٹھارہ گنا ثواب
- تغییر_مسیر الگو:پاسخ
وہ حدیث جو قرض دینے کا ثواب اٹھارہ گنا بتا رہی ہے، کیا وہ صحیح حدیث ہے؟
اسکرپٹ نقص: «Infobox» کے نام سے کوئی ماڈیول نہیں ہے۔
قرض دینے پر اٹھارہ گنا ثواب ملنے کا ذکر، ان احادیث میں بیان ہوا ہے جو الکافی اور تھذیب الاحکام جیسی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ اور ان میں سے ایک حدیث جو امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے، سند کے لحاظ سے معتبر ہے۔ اس حدیث کے مطابق، صدقہ دینے کا ثواب دس گنا اور قرض دینے کا ثواب اٹھارہ گنا ہے۔
پہلی حدیث
«عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع): مَكْتُوبٌ عَلى بَابِ الْجَنَّةِ: الصَّدَقَةُ بِعَشَرَةٍ، وَ الْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ؛ ؛ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے: صدقہ دینے کا ثواب دس گنا اور قرض دینے کا ثواب اٹھارہ گنا ہے۔»[1]
سند کی تحقیق
اس روایت کو شیخ کلینی نے کتاب الکافی میں امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے۔[1] اس حدیث کے راوی مندرجہ ذیل افراد ہیں: علی بن ابراہیم، ان کے والد، ابن ابی عمیر، منصور بن یونس اور اسحاق بن عمار۔[1]
علامہ مجلسی نے کتاب مرآة العقول میں اس حدیث کی سند کو حَسَن یا مُوَثّق قرار دیا ہے۔[2]شیعوں کے ماہر علم رجال جناب شیخ طوسی کے مطابق، اس حدیث کے ایک راوی منصور بن یونس واقفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں،[3]اگرچہ انہیں ثقہ اور قابل اعتماد راوی شمار کیا جاتا ہے۔[4]لہذا یہ حدیث موثق اور معتبر ہے۔
شیخ صدوق نے بھی اس حدیث کو کتاب من لا یحضره الفقیہ میں نقل کیا ہے۔[5]
دوسری حدیث
«عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع)، قَالَ: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص): الصَّدَقَةُ بِعَشَرَةٍ، وَ الْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَر…؛ امام صادق علیہ السلام نے نبی گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے: "صدقہ دینے کا ثواب دس گنا اور قرض دینے کا ثواب اٹھارہ گنا ہے...».[6]
سند کی تحقیق
اس روایت کو شیخ کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں امام صادق علیہ السلام سے اور آپ نے نبی گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے۔[6]
اس حدیث کے ایک راوی نوفلی کے بارے میں قدیم رجالی کتابوں میں نہ تو توثیق وارد ہوئی ہے اور نہ ہی تضعیف۔[7] چودہویں صدی ہجری کے ماہر رجال جناب عبداللہ مامقانی کے مطابق، اگرچہ بعض ماہرین نے نوفلی کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن میں انہیں حسن کے درجے میں شمار کرتا ہوں۔[8]
علامہ حلی کے بقول، اس حدیث کے دوسرے راوی «سکونی»، اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں۔[9] بعض علماء نے سکونی کو ثقہ جانا ہے اور ان کی روایات پر عمل کرتے ہیں۔[10] پس اس حدیث کی سند کو معتبر یا غیر معتبر ماننا، رجالی نظریہ پر موقوف ہے۔
علامہ مجلسی نے اپنی کتابوں مرآة العقول[11] اور ملاذ الأخیار[12] میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
شیخ طوسی نے بھی اپنی کتاب تہذیب الأحکام میں اس حدیث کو اسی سلسلہ سند کے ساتھ شیخ کلینی سے نقل کیا ہے۔ [13]
حوالہ جات
- ↑ 1.0 1.1 1.2 کلینی، محمد، کافی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق، ج۴، باب القرض، ص۳۳.
- ↑ مجلسی، محمد باقر، مرآه العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ دوم، ج۱۶، ص۱۶۲.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، به تحقیق جواد قیومی اصفهانی، قم، جماعة المدرسین، ۱۳۷۳ش، ص۳۴۳.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، به تحقیق موسی شبیری زنجانی، قم، جماعة المدرسین، ۱۳۶۵ش، ص۴۱۲.
- ↑ ابن بابویه، محمد، من لایحضره الفقیه، قم، جامعه مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق، ج۲، باب ثواب القرض، ص۵۸، حدیث ۱۶۹۷ و ج۲، باب فضل الصدقه، ص۶۷، حدیث ۱۷۳۸.
- ↑ 6.0 6.1 کلینی، محمد، کافی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق، ج۴، باب الصدقه علی القرابه، ص۱۰.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، به تحقیق موسی شبیری زنجانی، قم، جماعة المدرسین، ۱۳۶۵ش، ص۳۸؛ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، به تحقیق جواد قیومی اصفهانی، قم، جماعة المدرسین، ۱۳۷۳ش، ص۴۹۰.
- ↑ مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، به تحقیق محی الدین مامقانی، و محمدرضا مامقانی، قم، مؤسسة آل البیت(ع) لاحیاء التراث، ۱۴۳۱ق، ص۱۵۵.
- ↑ علامه حلی، حسن بن یوسف، رجال العلامة الحلی، به تصحیح محمدصادق بحرالعلوم، قم، الشریف الرضی، ۱۴۰۲ق، ص۱۹۹.
- ↑ استرآبادی، محمد بن علی، منهج المقال فی تحقیق احوال الرجال، قم، مؤسسة آل البیت(ع) لاحیاء التراث، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۰۷.
- ↑ مجلسی، محمد باقر، مرآه العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ دوم، ج۱۶، ص۱۳۵.
- ↑ مجلسی، محمد باقر، ملاذ الاخیار فی فهم تهذیب الاخبار، قم، کتابخانه مرعشی نجفی، چاپ اول، ج۶، ص۲۷۸.
- ↑ طوسی، محمد، تهذیب الاحکام، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق، ج۴، باب۲۹ باب الزیادات فی الزکاه، ص۱۰۶، حدیث۳۶.