واقعہ سقیفہ
- تغییر_مسیر الگو:پاسخ
واقعہ سقیفہ کی وضاحت فرمائیں؟
سقیفہ بنی ساعدہ کا حادثہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد، آپ کے جانشین کو چننے کے مقصد سے پیش آیا۔ امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیگر ممتاز صحابہ کی غیر موجودگی میں، مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اکھٹا ہوکر شدید اختلافات اور لڑائی جھگڑے کے بعد، ابو بکر کو خلیفہ منتخب کیا۔ اس کے فوراً بعد، انہوں نے مختلف طریقے اور حربے استعمال کرتے ہوئے دوسروں سے بیعت لی اور ابو بکر کی خلافت کو مضبوط بنایا۔
سقیفہ کا محل وقوع اور کارکردگی
سقیفہ بنی ساعدہ مسجد نبوی کے شمال مغرب میں واقع تھا۔ یہ چھوٹا سا ایک سایبان تھا جس میں سو سے کم افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ یہ جگہ انصار (مدینہ کے باشندے، منجملہ اوس و خزرج) کے اجتماعات کے لئے مخصوص تھی۔[1]
عربی زبان میں "سقیفہ" کا مطلب ایک سایہ دار جگہ یا چھت سے ڈھکا ہوا حصہ ہے۔[2]
سقیفہ میں نبی اکرم (ص) کے جانشین کے انتخاب کے لئے جلسہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد، جب کہ امام علی علیہ السلام اور بنی ہاشم، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل و کفن اور تدفین میں مصروف تھے، انصار کی ایک جماعت اور چند مہاجرین، نبی (ص) کے جانشین کو انتخاب کرنے کے لئے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔
سقیفہ میں اکٹھا ہونے والے لوگوں میں سے ہر ایک اپنے گروہ کو دوسروں سے زیادہ اہل سمجھ رہا تھا۔ انصار نے اپنے ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کی مدد و حمایت کو رسول کے جانشین بننے میں اپنی برتری کی بنیاد بنایا، جبکہ مہاجرین نے اسلام میں اپنی سبقت اور نبی اکرم (ص) کے ساتھ قرابت کو جانشینی میں تقدم کی دلیل کے طور پر پیش کیا۔ مہاجرین کی دلیلیں سننے کے بعد، انصار نے یہ تجویز پیش کی کہ "ایک امیر ہمارے درمیان سے اور ایک امیر تمہارے درمیان سے ہو"۔ لیکن ابو بکر نے قریش کی جانشینی پر نبی اکرم (ص) کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔[3]
انصار، جو سعد بن عبادہ کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے تھے ناکام ہوگئے اور آخرکارانہوں نے ابوبکر کو خلیفہ بنانے کی عمر بن خطاب کی تجویز کو قبول کرلیا اور فورا بیعت کرلی۔ وہاں موجود زیادہ تر حاضرین نے بھی ان کی پیروی کی۔ بعض محققین معتقد ہیں کہ اوس و خزرج قبیلوں کے مابین موجود دیرینہ دشمنی نے بھی مہاجرین کی رائے کے مورد قبول واقع ہونے میں کردار ادا کیا.[4]
لوگوں سے بیعت لیا جانا
سقیفہ سے نکلنے کے بعد، انہوں نے مختلف طریقوں اور حربوں سے دوسروں سے بیعت لی۔ امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام، صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ کی جانب سے ان کی مخالفت کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں اور ابوبکر کی خلافت مضبوط ہوگئی۔
کچھ لوگوں کو یہ کہہ کر بیعت پر مجبور کیا گیا کہ مسلمانوں کی جماعت سے مخالفت جائز نہیں۔ نیز غاصبین خلافت نے بیعت حاصل کرنے کے لئے مغالطے، نصیحت، لالچ، دھمکیوں، قتل، دہشت پھیلانے اور احادیث کی جعل سازی جیسے مختلف ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر بہت ہی کم وقت میں زیادہ تر لوگوں سے بیعت لینے میں کامیاب ہوگئے، جبکہ بیعت کرنے والوں میں سے بعض نے میل و رغبت کے ساتھ اور بعض نے ناخواستہ یا زبردستی بیعت کی۔[5]
اس انتخاب کے وقت، امام علی علیہ السلام، خاندان بنی ہاشم، مہاجرین و انصار کی بعض سرکردہ شخصیات اور بزرگ صحابہ جیسے عباس بن عبدالمطلب نبی اکرم (ص) کے چچا، سلمان فارسی، مقداد، عمار، ابوذر غفاری اور دوسرے افراد موجود نہیں تھے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، خلافت میں پیدا ہونے والے اس انحراف و کجروی پر غم و غصے اور ناراض ہوتے ہوئے، قریش کی عورتوں کے جواب میں فرماتی ہیں:
- «میں تمہاری دنیا سے بیزار ہوں اور تم سے جدائی پر خوش ہوں کیونکہ تم نے میرے حقوق کی رعایت نہیں کی، نہ نبی اکرم (ص) سے کیا گیا عہد و پیمان اور وعدہ نبھایا، اور نہ ہی آپ کی وصیت کو قبول کیا.».
بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ ابو بکر اور عمر کے ذریعہ خلافت کو غصب کرلینے سے، لوگ نبی اکرم (ص) کے اہل بیت (ع) سے دور ہوتے چلے گئے، اور اس کے برے اثرات ظاہر ہوئے؛ اگرچہ امام علی علیہ السلام اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے موقف، اقدامات اور علمی کارکردگی نے اسلام کو مکمل انحراف سے بچا لیا۔[6]
حوالہ جات
- ↑ حسنی، علی اکبر، تاریخ تحلیلی و سیاسی اسلام از جاهلیت تا عصر اموی، نشر فرهنگ، اول، ۱۳۷۳، ص۳۱۹.
- ↑ شهیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تهران، مرکز نشر دانشگاهی، چاپ دوم، ۶۳، ص۹۱.
- ↑ شهیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تهران، مرکز نشر دانشگاهی، چاپ دوم، ۶۳، ص۹۲.
- ↑ شهیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تهران، مرکز نشر دانشگاهی، چاپ دوم، ۶۳، ص۹۲.
- ↑ رشاد، علی اکبر، دانشنامه امام علی(ع)، تهران، فرهنگ و اندیشه اسلامی، ۱۳۸۰، ج۸، صصص ۴۰۵ و ۴۵۵.
- ↑ حسنی، علی اکبر، تاریخ تحلیلی سیاسی اسلام، نشر فرهنگ، اول، ۱۳۷۳، ص۳۲۱.