بحیرا
- تغییر_مسیر الگو:پاسخ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شام کے سفر میں ایک عیسائی راہب "بحیرا" سے ملاقات کی تھی اور قرآن اس سے سیکھا یا اسلام کی پیدائش میں اس کا اہم کردار تھا۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
بحیرا ایک عیسائی راہب تھا جس نے جناب ابوطالب اور پیغمبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واله وسلم سے ان کے شام کے تجارتی سفر کے دوران ملاقات کی۔ بحیرا نے ان کے سامنے پرزور انداز میں کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عام شخص نہیں ہیں بلکہ اُن میں نبوت کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ منقولہ روایات کے مطابق بحیرا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رسالت کی علامتیں مشاہدہ کیں لیکن اُس نے آپ کو کچھ سکھایا نہیں۔ بحیرا ایک مختصر ملاقات میں پیغمبر اسلام کو قرآن نہیں پڑھا سکتا تھا، اور نہ ہی اُس کا اسلام کی پیدائش میں کوئی کردار تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بحیرا راہب سے ملاقات
بعض حدیثی اور تاریخی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ جناب ابو طالب نے تجارتی قافلے کے ساتھ شام کی جانب سفر کا فیصلہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جو اس وقت کم سن بچے تھے اپنے ہمراہ لے گئے۔ ایک پڑاؤ میں، قافلہ بحیرا راہب کی خانقاہ کے نزدیک آرام کرنے کے لئے رُکا۔ بحیرا راہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور کہا:
- «اے بچے! لات اور عزیٰ کی قسم دیتا ہوں جو میں تم سے پوچھوں اس کا جواب دو۔».
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «لَا تَسْأَلْنِي بِهِمَا فَوَ اللَّهِ مَا أَبْغَضْتُ شَيْئاً كَبُغْضِهِمَا؛ مجھے لات اور عزیٰ کی قسم نہ دو، خدا کی قسم! میں ان دونوں سے زیادہ کسی چیز سے نفرت نہیں رکھتا»۔ بحیرا نے کہا:
- «خدا کی قسم دیتا ہوں جو کچھ پوچھوں اس کا جواب دو۔».
پیغمبر نے فرمایا:
- «اب جو پوچھنا چاہو پوچھو.»۔
اس نے کچھ سوالات کئے، اور حضرت نے جواب دیا۔ اس کے بعد بحیرا نے ابو طالب سے کہا:
- «اپنے بھتیجے کی حفاظت کرو، آپ کا یہ بھتیجا بہت بلند مقام پانے والا ہے۔».[1]
اس سفر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر نو[2] یا بارہ سال تھی۔[3] مختصر اختلاف کے ساتھ بحیرا راہب کی ملاقات کا ذکر شیعہ[4] اور اہلسنت[5] کی کتابوں میں آیا ہے۔
بحیرا کا اسلام کی پیدائش سے کوئی تعلق نہ ہونا
بعض مستشرقین نے یہ ادعا کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دین کی بنیادی باتیں ایک عیسائی راہب سے سیکھی تھیں۔[6] اس نظریے پر چند اعتراضات پیش کئے گئے ہیں:
- اس کھوکھلے دعوے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات، جو اس سفر کے ۲۸ سال بعد ظاہر فرمائیں، اس مختصر ملاقات میں بحیرا سے سیکھی ہوں۔[7]
- یہ ملاقات عارضی اور مختصر تھی اور قافلے کے گزرتے وقت انجام پائی، اور بات چیت کا محور بھی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی پیشین گوئی تھی، لہذا یہ مختصر ملاقات کوئی ایسا معیار نہیں بن سکتی جس پر اسلام جیسے وسیع دین کی بنیاد قائم ہو۔[8]
- قرآن آسمانی وحی ہے اور یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن کے معارف بحیرا جیسے راہب کی جانب سے وضع کئے گئے ہوں۔[9]
حوالہ جات
- ↑ طبرسی، فضل بن حسن، زندگانی چهارده معصوم (ترجمه إعلام الوری)، مترجم: عزیزالله عطاردی قوچانی، تهران، اسلامیه، چاپ اول، ۱۳۹۰ق، ص۲۰.
- ↑ بلعمی، محمدبن محمد، تاریخنامه طبری، چاپ محمد روشن، تهران، ۱۳۶۶ش، ج ۱، ص۲۰–۲۱. یعقوبی، احمد بناسحاق، تاریخ یعقوبی، ترجمة محمدابراهیم آیتی، تهران، ۱۳۶۲ش، ج ۱، ص۳۶۹.
- ↑ بنسعد، الطبقات الکبری، ترجمة محمود مهدوی دامغانی، تهران ۱۳۶۵–۱۳۶۹ش، ج ۱، ص۱۱۶.
- ↑ حمیری، عبدالله بن جعفر، قرب الإسناد، قم، مؤسسه آل البیت، چاپ اول، ۱۴۱۳ق، ص۳۱۸. ابن بابویه، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، تهران، اسلامیه، چاپ دوم، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۱۸۲، باب۱۴، حدیث۳۵. مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیه، قم، انصاریان، چاپ سوم، ۱۳۸۴ش/ ۱۴۲۶ق، ص۱۱۵. طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الهدی، تهران، اسلامیه، چاپ سوم، ۱۳۹۰ ق، ص۱۷. قطب الدین راوندی، سعید بن هبة الله، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسه امام مهدی، چاپ اول، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۰۸۴.
- ↑ بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوة فی احوال صاحب الشریعه، بیروت، دارالکتب العلمیه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۳۵. ابن هشام، السیره النبویه، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۱۹۱. طبری، تاریخ الامم و الملوک، قاهره، دار المعارف، چاپ پنجم، ۱۳۸۷ هـ. ق، ج۲، ص۲۷۷. ابن سعد، محمد بن سعد، طبقات الکبری، بیروت، دارصادر، بی تا، ج ۱، ص ۱۵۴.
- ↑ معروف حسنی، هاشم، سیرة المصطفی، بیروت، ۱۴۰۶م/۱۹۸۶ق، ص۵۳. رشیدرضا، محمد، الوحی المحمّدی، قاهره، ۱۳۸۰/م۱۹۶۰ق، ص۷۲.
- ↑ سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، بی جا، مؤسسه مطبوعاتی دارالتبلیغ، ۱۳۴۵، ج۱، ص۱۴۲.
- ↑ زرگری نژاد، غلام حسین، تاریخ صدر اسلام، چاپ اوّل تهران، نشر سمت، ۱۳۷۸، ص۲۰۸.
- ↑ رامیار، محمود، تاریخ قرآن، چاپ ۴، تهران، امیرکبیر، ۱۳۷۹ش، ص۱۳۱.