اسلام کی نظر میں چھوت چھات

ویکی پاسخ سے
نظرثانی بتاریخ 17:58، 17 مئی 2023ء از Nazarzadeh (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
سؤال

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا «لاعدوی فی الاسلام» یعنی اسلام میں چھوت چھات یعنی بیماری کا پھیلنا نہیں ہے۔ اب جبکہ سماج میں کرونا کا پھیلاؤ اور لوگوں کے درمیان اس کے پھیلنے کے بارے میں حساسیت ایک مسلم چیز ہے تو کیا یہ فرمان علم و عقل کے خلاف نہیں لگتا ہے؟


اسلام نہ صرف یہ کہ کچھ بیماریوں کے پھیلنے کا قائل ہے بلکہ بنیادی طور سے ہر بیماری کو پھیلنے والی شمار کرتا ہے مگر یہ کہ کسی بیماری کا نہ پھیلنا ثابت ہو جائے۔ بیمار کی عیادت کی سفارش بھی صرف اسی صورت میں کرتا ہے جب بیماری پھیلنے والی نہ ہو۔ اور یہ روایت کہ «لا عَدْوَى...‏؛ بیماری پھیلتی نہیں ہے...» کئی غلط فہمیوں کا سبب بنی ہے۔ اس روایت کی سند انتہائی ضعیف ہے۔ بد قسمتی ہے کہ روایتی طب یعنی دیسی طب پر جنون کی حد تک یقین رکھنے والے کچھ لوگ اس روایت کو دلیل بناکر پھیلنے والی وبا اور بیماری سے پرہیز نہیں کرتے ہیں۔ اور دوسروں کو بھی بے احتیاطی پر اکساتے ہیں۔ مذکورہ روایت دوسری ان روایتوں کے برخلاف ہے جو بیماروں کے پاس بیٹھنے سے روکتی ہیں۔ اگر اس کی سند کو مان بھی لیا جائے تو اس روایت کا مقصد یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ چھوت چھات کے حکم کی نفی کی گئی ہے۔ یعنی اگر کسی شخص کو پھیلنے کی وجہ سے بیماری لگ گئی تو بیمار کے اوپر اس کا کوئی حق ثابت نہیں ہوتا ہے اور وہ اس بیمار سے نقصان کی تلافی کا مطالبہ نہیں کر سکتا ہے یا اس کو اپنی بیماری کا سبب نہیں بتا سکتا ہے۔

بیماری کا پھیلنا روایات میں

دینی منابع میں بعض بیماریوں کی سرایت کی تصریح موجود ہے اور بیماری کے پھیلنے کا سرے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے:

  • ایک روایت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: «بیمار شخص کو صحیح سالم لوگوں کے پاس نہیں جانا چاہیے».[1] یہ روایت ان روایات سے متعارض ہے جو بیماروں کی عیادت کے سلسلہ میں ہیں۔ لیکن یہ روایت اس بیماری کے بارے میں ہو سکتی ہے جس کا مسری ہونا یا نہ ہونا واضح نہ ہو۔ لہذا اس روایت کے مطابق بیماریاں بنیادی طور پر مسری ہوتی ہیں، اور عیادت کا مستحب عمل اسی وقت جائز ہے جب ہمیں بیماری کے مسری نہ ہونے کا اطمینان ہو۔
  • اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ «جزامی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو».[2] ایک اور روایت کے مطابق ایک کوڑھ شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے پاس بیعت کرنے کے لئے آیا لیکن آپ نے ہاتھ ملائے بغیر ہی اس کی بیعت کو قبول کر لیا۔[3] دوسری طرف کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ[4] اور اہل بیت علیہم السلام[5] نے کوڑھیوں کے ساتھ کھانا کھایا۔ کوڑھ سے پرہیز کرنے اور کوڑھیوں کے ساتھ کھانا کھانے کی روایتوں میں تعارض نہیں ہے۔ کیونکہ کوڑھ کی بیماری دو طرح کی ہوتی ہے، ایک خشک ہوتی ہے جو پھیلتی نہیں ہے اور دوسری وہ ہوتی ہے جو پھیلتی ہے۔ اسی وجہ سے چھوت والے کوڑھیوں کو شہروں میں اور لوگوں کے درمیان جانے سے منع کیا جاتا تھا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ جن کوڑھیوں کے ساتھ معصومین علیہم السلام نے کھانا کھایا وہ چھوت والے کوڑھی نہیں تھے.
  • ایک شخص نے امام کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ اگر کسی شہر میں طاعون کی بیماری آ گئی ہو تو کیا مجھے وہاں سے نکل جانا چاہئے؟ امام نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا اگر کسی گاؤں دیہات میں ہو تو؟ آپ نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا اگر گھر میں ہو تو؟ آپ نے فرمایا ہاں باہر نکل جاؤ۔ راوی نے سوال کیا ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ "طاعون سے بھاگنا جہاد سے بھاگنے کی طرح ہے" امام نے فرمایا "یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کے لئے کہا جو سرحدوں پر دشمنوں سے جنگ میں مصروف تھے اور جب وہاں طاعون آیا تو فوجی وہاں سے بھاگ گئے اور میدان جنگ خالی کردیا"۔ [6]
  • پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: "جذام یا کوڑھ کے بیماروں کو زیادہ مت دیکھو اور جب ان سے گفتگو کرو تو ایک نیزہ کے برابر ان سے دور رہو"[7]

ان کو دیکھنے سے روکنے کی سفارش میں ممکن ہے مخاطب کے لئے نفسیاتی صحت کا پہلو پوشیدہ ہو۔ اور ایک نیزہ کا فاصلہ جو روایت میں آیا ہے وہ دو میٹر کے قریب ہوتا ہے اور آج کے ڈاکٹر بھی بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اس فاصلہ کی سفارش کرتے ہیں۔

  • امام سجاد علیہ السلام نے دشمنان اسلام کو نفرین کرنے کے لئے فرمایا ہے: «خدایا ان کے پانیوں میں وبا کو اور ان کی غذاؤں میں درد (بیماری) کو ملا دے۔ [8]

اس روایت میں امام نے ایک طرف وبا کے میکروب کے مرکز کو بیان کیا ہے جو کہ پانی ہوتا ہے، دوسری طرف خدا سے دعا کی ہے کہ اس میکروب کو دشمنوں کے پانیوں میں ملا دے تاکہ وہ اس میں مبتلا ہو جائیں۔ اس روایت سے سمجھ میں آتا ہے کہ امام بیماری کے پھیلنے کو مانتے تھے اور پھیلنے والی بیماری کا وجود اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔

روایت «لا عدوی فی الإسلام» کا جائزہ

روایت «لَا عَدْوَى‏ فی الاسلام» سے کچھ غلط نتیجہ نکالا گیا ہے۔ اس روایت کی شیعہ سند بہت ضعیف ہے۔ لیکن صحیح مسلم و صحیح بخاری[9] میں نقل ہونے کی وجہ سے اہل سنت کے درمیان اس کو صحیح السند مانا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ اہل سنت کے درمیان بھی اختلاف کا سبب بنی ہے اور دوسری روایتوں سے تعارض کی وجہ سے تنازع پیدا ہوا ہے۔ [10] یہ روایت شیعہ منابع میں اس طرح نقل ہوئی ہے: «نضر بن قرواش جمّال (اونٹ والا) سے روایت ہے کہ: میں نے امام صادق علیہ السلام سے اس اونٹ کے بارے سوال کیا جسے جرب (جلد کی ایک بیماری) لگ گئی ہو کہ کیا میں بیماری پھیلنے کی وجہ سے اس کو دوسرے اونٹوں سے الگ کردوں؟ امام نے فرمایا: ایک بادیہ نشین رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ میں نے سستے گوسفند اور اونٹ دیکھے ہیں جو کہ جرب میں مبتلا ہیں، مجھے ان کو خریدنا پسند نہیں ہے کہ کہیں ان کا جرب میرے گوسفندوں اور اونٹوں کو نہ لگ جائے۔ آپ نے اس سے فرمایا: تو پھر ان کو کس نے مبتلا کیا ہے؟ پھر فرمایا: اسلام میں بیماری کا پھیلنا (عدوی) نہیں ہے۔ [11]

روایتی طب کے کچھ کٹر حمایتی اس روایت کے ظاہر سے استناد کرتے ہوئے پھیلنے والی بیماریوں سے پرہیز نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی بے احتیاطی کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی طرز زندگی کو اپناتے ہوئے کوئی مسلمان بیمار نہیں ہوگا اور کوڑھیوں کے ساتھ کھانا کھانے سے متعلق معصومین علیہم السلام سے منقول روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے توکل کو مشکلات کا حل سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہ توجیہ ان روایتوں سے متعارض ہے جو پھیلنے والی بیماریوں سے دور رہنے کی سفارش کرتی ہیں۔ اور کوڑھ کے مرض کی دو قسمیں یعنی پھیلنے والا اور نہ پھیلنے والا کوڑھ بھی ان کے استدلال کو کمزور کرتے ہیں۔

حقیقت سرایت کو ماننا اور اس کے حکم کو مسترد کرنا

دوسری روایتوں میں «عدوی» یعنی پھیلنے والے بیماری کا لفظ «طیره» یعنی (فال بد) کے ساتھ آیا ہے۔ طیرہ ان 9 چیزوں میں سے ایک ہے جو حدیث رفع میں بیان ہوئی ہیں۔ علماء کی مشہور نظر کے مطابق حدیث رفع میں ان 9 چیزوں کی حقیقت سے انکار نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اللہ کی طرف سے ان 9 چیزوں کا حکم مسلمانوں سے اٹھا لیا گیا ہے۔ طیرہ وغیرہ کی طرح سرایت سے بھی صرف اس کا حکم اور اس کے قانونی اور شرعی آثار کو اٹھا لیا گیا ہے۔ خود سرایت اور بیماری کا پھیلنا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ یہ بات حضرت علی علیہ السلام کے فرمان سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ «و الطیره لیست بحق، والعدوی لیست بحق»[12] اس روایت میں حضرت علیہ السّلام کا یہ مقصد نہیں ہے کہ سرایت ہوتی ہی نہیں ہے بلکہ آپ نے اس کے حکم کی نفی کی ہے یعنی جس شخص کے ذریعہ بیماری پھیلی ہے وہ ضامن نہیں ہوتا ہے اور اگر بیماری کسی دوسرے کو لگ جائے تو بیمار شخص پر کوئی حق نہیں بنے گا۔ اور وہ اس بہانے سے تلافی کا مطالبہ نہیں کر سکتا اور اس کو اپنی بیماری کا سبب قرار نہیں دے سکتا۔

منابع

  • یہ مقالہ مندرجہ ذیل مقالہ سے ماخوذ ہے: «میکروب، سرایت و قرنطینہ در اسلام» تالیف: روح الله رضوی، مجلہ پاسخ، شماره 18 تابستان ۱۳۹۹.
  1. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعه لدرر أخبار الأئمه الأطهار(ع)، بیروت: دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ، ج۶۲، ص۸۲.
  2. مجلسی، بحار الأنوار، ج۷۲، ص۱۳۱
  3. مجلسی، بحار الأنوار، ج۶۲، ص۸۳.
  4. مجلسی، بحار الأنوار، ج۶۲، ص۸۲.
  5. کلینی، محمد بن‌ یعقوب بن اسحق، الأصول، فروع، الروضه من الکافی، مصحح علی‌اکبر الغفاری، تهران: دارالکتب الإسلامیه، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۲۳.
  6. حر عاملی، محمد بن‌ حسن، تفصیل وسائل الشیعه، قم: مؤسسه آل‌ البیت(ع)، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۴۳۰.
  7. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعه لدرر أخبار الأئمه الأطهار(ع)، بیروت: دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق، ج۶۲، ص۸۳.
  8. صحیفه سجادیه، دعای۲۷.
  9. بخاری، محمد بن‌ إسماعیل، صحیح البخاری، محقق: محمد زهیر بن‌ ناصر الناصر، بیروت: دارطوق النجاه، ۱۴۲۲ق، ج۷، ص۱۹، ۲۶، ۲۷ و ۳۱.
  10. دیکھئے أبوالحسن القشیری النیسابوری، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، محقق: محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت: دار إحیاء التراث العربی ۱۴۲۱ق، ج۷، ص۳۱و۳۲.
  11. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعه لدرر أخبار الأئمه الأطهار(ع)، بیروت: دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق، ج۵۵، ص۳۱۸.
  12. نهج البلاغه، حکمت۴۰۰.