مصحف فاطمہ (س)

ویکی پاسخ سے

سوال : مصحف فاطمہ (س) کیسی کتاب ہے؟ کیا اس کتاب کو اخت قرآن بھی کہا جاتا ہے؟

مصحف فاطمہ وہ کتاب ہے جسکو جبرائیل نے پیغمبر اسلام (ص) کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ زہرا کو سنائی تھی اور امام علی (ع) نے لکھا ہے۔ احادیث کے مطابق ایسی کتاب کے ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے وجود سے متعلق روایات شیعہ کے قدیمی ترین منابع، جیسے بصائر الدرجات اور الکافی میں ملتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا کسی کو دستیاب نہیں تہی اور شیعہ ائمہ کے پاس محفوظ ہے۔ اس مصحف سے متعلق زیادہ تر روایات علامہ مجلسی نے علوم اہل بیت علیہم السلام سے متعلق ابواب میں نقل کی ہیں۔

اس مصحف کے مشمولات میں مستقبل کے واقعات اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کی تقدیر جیسی چیزیں شامل ہیں۔ اس مصحف کے وجود سے شیعہ تعلیم کے میدان میں استفادہ کیا گیا ہے۔ مصحف فاطمہ (س) سے متعلق بعض روایات کے مواد میں اختلاف اور بعض اوقات ان کے ظاہری اختلاف نے اس مصحف کی تفصیلات کے بارے میں علماء کے فیصلے مختلف ہو گئے ہیں۔ معتبر ذرائع میں اس کتاب کے قرآن کی بہن کے طور پر پڑھے جانے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

تعارف اور خصوصیات

اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں مذکور ہے کہ حضرت فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کا مصحف انکو الہام ہوا تھا۔[1] ان میں سے بعض احادیث کی سندیں معتبر ہیں۔ اس وجہ سے ایسی کتاب کے وجود میں شک و شبہ کی گنجایش نہیں ہے۔ ان صحیح احادیث میں سے ایک روایت امام صادق (علیہ السلام) سے بھی ہے۔ جس میں آپ نے مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا سے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا: اس اقتباس میں اس مصحف کی تفصیل ہے اس کے املاء سمیت، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کے 75 دنوں میں وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے بعد پیش کیا گیا تھا۔[۲]

مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے وجود سے متعلق روایت، شیعہ کی قدیمی ترین منابع میں ہے کیونکہ یہ بصار الدرجات[۳] اور الکافی[۴] سے آئی ہے۔ علامہ مجلسی نے علوم اہل بیت علیہم السلام کے ابواب میں اس مصحف سے متعلق سب سے زیادہ روایات نقل کی ہیں۔[۵]

اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کے مطابق یہ مصحف کسی تک نہیں پہنچا ہے اور ائمہ (علیہم السلام) نے حفاظت کی ہے۔[۶] ان میں سے بعض احادیث کے ظاہری اختلاف کی وجہ سے بھی اس مصحف کی تفصیلات کے بارے میں علماء کے نظریا ت مختلف ہیں۔ مصحف کا حجم قرآن کے حجم سے تین برابر ہے۔[۷] ایسے مصحف کا وجود شیعہ معارف میں استعمال ہوا ہے۔[۸]

چونکہ مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے مطالب کے سلسلہ میں بعض روایات میں اختلاف ہے اس وجہ سے علماء کے نطریات بھی مختلف ہیں۔[۹]

املا کرنے اور لکھنے والے

مصحف فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کے املا کرنے والے کے بارے میں احادیث میں مختلف لوگوں کا ذکر آیا ہے جیسے خدا، فرشتہ ، جبرائیل اور رسول ۔ علامہ مجلسی نے ان احادیث کو جمع کیا ہے ۔ بعض محققین نے اس وجہ جمع کو اقوال کا بہترین وجہ جمع قرار دیا ہے ۔ انہوں نے رسول کے معنی کو ان روایات میں جبرائیل ( علیہ السلام ) قرار دیا ہے ۔ سید محسن امین عاملی، سید جعفر مرتضی عاملی، اور سید محمد حسین فضل اللہ سمیت دیگر علماء نے ان روایات کو جمع کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے ۔ تمام شیعہ احادیث اورعلما جنہوں نے اس مصحف کا ذکر کیا ہے، امام علی ( علیہ السلام ) کو اس مصحف کے کاتب اور مرتب کے طور پر متعارف کیا ہے۔

مطالب مصحف

مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) چند مطالب پر مشتمل سمجھا جاتا ہے۔ 1 - رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا مقام و مرتبہ اور حضرت فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کی اولاد کا مستقبل ۔ 2 - مستقبل کے واقعات کا بیان ۔ 3 - انبیاء (علیہم السلام ) کے اسماء اور انکے اوصیاء کا تذکرہ ۔ 4 - قیامت تک کے تمام بادشاہوں اور حکمرانوں کے نام ۔ 5 - شیعہ علماء میں سے ایک عبدالحسین شرف الدین نے اس مصحف میں دیگر مطالب کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں کہاوتیں، احکام، خطبات اور خبریں شامل ہیں۔ لیکن اس رائے کو بعض محققین نے رد کیا ہے۔ 6 - بعض دوسرے محققین ایک روایت کا حوالہ دیتے ہیں (جس میں شرعی احکام کی تفصیلات پر مشتمل کتاب فاطمہ کا ذکر کیا گیا ہے)انہوں نے کہا ہے کہ اس مصحف میں شریعت کے تمام مفصل احکام اور فوجداری قوانین کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔سید محمد حسین فضل اللہ نے اس رائے کی تصدیق کی ہے اور کتاب فاطمہ کو مصحف فاطمہ کے برابر قرار دیا ہے ۔ بعض محققین نے اس رائے کو رد کیا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فاطمہ کی یہ کتاب مصحف فاطمہ سے مختلف ہو اور فاطمہ کی کتاب کے عنوان میں فاطمہ کے معنی فاطمہ بنت الحسین ہوں۔

7 - شیعہ اسکالر اور پرنسٹن یونیورسٹی میں اسلامی قانون کے پروفیسر سید حسین مدرسی طباطبائی نے مصحف فاطمہ کو ایسا معارف سمجھا جس کا ذکر شیعہ باطنی افکار کے میدان میں تقریباً تمام معاملات میں یاد کیا گیا ہے۔

مصحف کے بارے میں شکوک و شبہات

بعض مستشرقین اور سنی علماء نے شیعوں پر الزام لگایا ہے کہ مسلمانوں میں موجودہ قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن موجود ہے، مصحف فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کے عنوان میں لفظ مصحف کی موجودگی کو لفظ قرآن میں محدود کر دیا ہے۔

ان لوگوں میں ہنگری کے ایک مشہور اسلامولوجسٹ Ignas Goldziher اور سعودی سلفی مصنف عبداللہ القاسمی کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اس رائے کے جواب میں بعض محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ شیعہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کا مصحف قرآن کے برابر نہیں ہے۔ان کے نزدیک اس عدم شمولیت کی دلیل وہ روایات ہیں جو شیعہ ائمہ نے مصحف فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کے بارے میں نقل کی ہیں اور ان میں سے اکثر نے مختلف تاویلات کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ مصحف فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) میں قرآن نہیں ہے۔

  1. مهدوی‌راد، محمدعلی، «مصحف فاطمه(س)»، دانشنامهٔ فاطمی، زیرنظر علی‌اکبر رشاد، تهران، انتشارات پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه اسلامی، ۱۳۹۳، ج ۳، ص ۶۴.