صہیونیزم کی تأسیس

ویکی پاسخ سے
نظرثانی بتاریخ 19:20، 22 دسمبر 2024ء از Ejazhmusavi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{شروع متن}} {{سوال}} صہیونیزم (صہیونیت) کا تصور کیسے وجود میں آیا؟ {{پایان سوال}} {{پاسخ}} '''صہیونیزم (صہیونیت) کے خیال کی پیدائش''' اصل میں پوری دنیا کے کسی بھی علاقہ میں یہودیوں کی کوئی مستقل حکومت نہیں تھی ان کا وجود بھی دنیا کے الگ الگ ملکوں میں ب...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
سؤال

صہیونیزم (صہیونیت) کا تصور کیسے وجود میں آیا؟

صہیونیزم (صہیونیت) کے خیال کی پیدائش اصل میں پوری دنیا کے کسی بھی علاقہ میں یہودیوں کی کوئی مستقل حکومت نہیں تھی ان کا وجود بھی دنیا کے الگ الگ ملکوں میں بکھرا ہوا تھا چنانچہ دنیاکے یہودیوں کو انتشار اور بکھرنے سے بچانے کے لیے اس کا تصور ذہن میں آیا، جس کی وجہ سے فلسطین میں ایک مستقل یہودی حکومت و ریاست کی تأسیس اور قیام کے ساتھ ساتھ بھر پور تلاش و کوشش اس بات پر تھی کہ پوری دنیا میں ہر طرف بکھرے اور پھیلے ہوئے یہودیوں کو وہاں جمع کیا جائے۔ مختلف ممالک بالخصوص یورپی ممالک میں یہودیوں پر فشار، دباؤ اور جو پریشانیاں انہیں اٹھانی پڑرہی تھیں ان کے اندر جذبۂ اتحاد پیدا کرنے کا سبب بنی اور یہ جذبہ دھیرے دھیرے قوی سے قوی تر ہوتا چلا گیا۔ ایک آسٹریائی باشندہ «تھیوڈرو ہرٹسل» نامی یہودی مصنف کے فکر و خیال نے اس صہیونی نظریہ اور ایک مستقل حکومت کی تشکیل میں ایک بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔ لہذا اس نے اپنے اس فکر و خیال کو ۱۸۹۵ء میں «یہودی ریاست» نامی کتاب تحریر کر کے پوری دنیا میں اسے شائع کردیا۔

بنابریں، صہیونیت کی پہلی عالمی کانفرنس یہودی دانشوروں اور سرمایہ داروں کے ذریعہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوئی اور اپنے مقاصد کے تحت بڑی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ صہیونیت کے شروعاتی مرحلہ میں اس جماعت کے رہنماؤں نے نہ کسی خاص علاقہ پر زور دیا اور نہ ہی کسی معین جگہ اور سرزمین کی تاکید کی، بلکہ ان کا اصلی مقصد اور زیادہ تر تاکید ایک صہیونی ریاست کے قیام اور وہاں پر تمام ممالک سے بکھرے اور پراکندہ یہودیوں کو اکٹھا کرنا تھا۔ البتہ صہیونیوں کا ایک گروہ پہلے سے ہی سرزمین فلسطین کی نسبت حساسیت کا شکار اور اس کی طرف خاص توجہ رکھتے ہوئے اسے سرزمین موعود تصور کررہا تھا۔ آخر کار یہ گروہ غالب حیثیت کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اور اسی بنا پر انہوں نے سرزمین فلسطین پر اپنی حکومت کا جھنڈا گاڑ کر اپنی ریاست کا اعلان کردیا۔

صہیونیت کی حقیقت

صہیونیت یا صہیونیزم، یہودیوں کی ایک قومی تحریک کا نام ہے۔ جس کا بنیادی مقصد فلسطین میں ایک خودمختار یہودی حکومت اور یہودی سماج و معاشرہ کی تشکیل ہے۔[1] اس تحریک کا نام «یروشیلم» میں واقع «صہیون» نامی پہاڑ (جہاں جناب داؤود نبی علیہ السلام کی قبر مطہر ہے) سے لیا گیا ہے۔

اس تحریک کے رہنماؤں نے نسل پرستی اور یہودیوں کے تسلط کے نظریہ کے پیش نظر مختلف ممالک میں پائے جانے والے یہودیوں کو سرزمین فلسطین پر بلایا، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس نعرہ «فلسطین سرزمین موعود» کے تحت یہودیوں کو وہاں آباد کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فلسطین کے اصلی باشندوں یعنی مسلمانوں اور مسیحیوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا شروع کیا اور ان کے ساتھ ظلم و تشدد کا برتاؤ کرتے ہوئے یا تو انہیں ان کی اصلی سرزمین سے نکال باہر کیا یا تو انہیں قتل کر کے ابدی نیند کی آغوش میں بھیج دیا۔ نتیجتاً اس رویہ کے تحت انہوں نے اس سرزمین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جماکر اپنی ریاست کو بڑھاتے چلے آرہے ہیں۔[2]

صہیونیزم (صہیونیت) ایک سیاسی گروہ ہے جو اپنی قدرت و طاقت اور آلات ظلم و تشدد کے ذریعہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ «فلسطین» اور اس کے اطراف کے عربی ممالک میں ایک مستقل یہودی ریاست تشکیل دے اور دنیا میں پائے جانے والے تمام یہودیوں کو اس سرزمین پر جمع کرے۔[3]

صہیونیزم کی پیدائش کا پس منظر

ابتدائی طور پر اس گروہ کا مقصد فلسطین میں حکومت قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ پوری دنیا کے مختلف ممالک سے بکھرے ہوئے یہودیوں کو یکجا کرکے انہیں انتشار اور پراکندگی سے نجات دینا تھا۔ اسی فکر و خیال کی بنا پر اس تحریک کی سنگ بنیاد رکھی گئی۔[4]

مشرقی یورپی کے مختلف ممالک جیسے روس، پولینڈ، رومانیہ وغیرہ میں جو یہودیوں کے اوپر فشار اور دباؤ ڈالا جارہا تھا۔ اسی چیز نے یہودیوں کے اتحاد کی تحریک میں کلیدی رول ادا کر کے ان کی تحریک کو تقویت بخشی۔ اسی سلسلہ میں یہودیوں کے اعلیٰ شخصیت کے حامل افراد میں سے «پینکر» نامی شخص نے «خود مختاری» نام کی ایک کتاب تحریر کی اور اسے جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کے لیے یہودیوں کو ترغیب دلائی۔ اس نے اس کتاب میں یہ کہا کہ:

«دنیا یہودیوں کو ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے، کیوں کہ ہم پوری دنیا کے کسی خطہ اور کسی سرزمین پر کوئی مستقل مرکز اور وطن نہیں رکھتے ہیں نیز ہر طرف ہمیں بیگانہ ہی بیگانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس درد کا بنیادی علاج صرف یہ ہے کہ پوری دنیا کے تمام یہودی وطن (فلسطین) کی سرزمین پر جمع ہوں اور ایک مستقل یہودی ریاست قائم کریں ۔۔۔»۔

اس تجویز کا اثر یہ ہوا کہ فورا «عشّاق صہیون» نامی ایک تنظیم تشکیل پائی جس نے مندرجہ ذیل مقاصد کے تحقق پر کام کرنا شروع کردیا:

  • عبری زبان کی بحالی (احیا)۔
  • تمام یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت اور ترغیب و تشویق۔
  • فلسطین کی سرزمینوں پر قبضہ جمانا اور اس پر یہودیوں کو آباد کرنا۔[5]

اس گروہ اور حزب صہیون کا بجٹ یہودی سرمایہ داروں خاص طور پر ان سرمایہ داروں میں سے «بارون ایڈمونڈ چیلڈ» نامی شخص کے ذریعہ فراہم ہوتا ہے۔ ان کی اس مدد کی وجہ سے انہوں نے فلسطین کی زمین کے کچھ چھوٹے چھوٹے پلاٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، نتیجتا ان مقامات پر یہودیوں کو بسانے لگے۔

ابتدائی مرحلہ میں «عشاق صہیون» نامی تحریک کوئی بہت مشہور یا قابل ذکر تحریک نہیں تھی اور نہ ہی اس کا کوئی واضح و روشن سیاسی مقصد تھا۔ یہاں تک کہ ایک یہودی قلمکار «تھیوڈور ہرٹسل» نامی ایک آسٹریایی باشندہ، کسی ایک یہودی کے ساتھ رونما ہونے والے حادثہ سے متأثر ہوکر یہودیوں کے لیے ایک مستقل سرزمین کے قیام پر جدی طور پر سرگرم عمل ہوگیا۔ ا

ور اسی بنیاد پر اس نے ۱۸۹۵ء میں «یہودی ریاست» نامی ایک کتاب تحریر کرکے اسے شائع کیا۔ اس کتاب میں اس نے اپنے اظہار خیال کو ان الفاظ کے گلدستہ میں پیش کیا: «یہودیوں کے پریشان کن مسائل کا حل یہ ہے کہ جو افراد کسی ملک میں زندگی بسر کررہے ہیں اور وہ وہاں کہ حالات اور مشکلات کو تحمل نہیں کرسکتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ایک ایسے وسیع و عریض علاقہ میں جمع ہوں جو ایک بڑی قوم کے لیے کافی ہو»۔ ہرٹسل کی کتاب اور تشکیل حکومت صہیونیزم کا نظریہ یہودیوں کو بہت پسند آیا اور اس کا کافی استقبال کیا گیا، اسی بنا پر صہیونیزم کے حامیوں بالخصوص ہرٹسل وغیرہ کا ضمیر اس قدر بیدار ہوا، اس قدر بیدار ہوا کہ انہوں نے کچھ دنوں کے بعد ہی سوئٹزرلینڈ کے «بال» نامی شہر میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد کرڈالی»۔[6]

صہیونیزم کی عالمی کانفرنس اور صہیونی حکومت کا قیام

صہیونیت کی پہلی عالمی کانفرنس یہودی دانشوروں اور سرمایہ داروں کے ایک بڑے اجتماع کے ساتھ منعقد کی گئی اور یہ کانفرنس اپنے مقاصد کے تحت بڑی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ کانفرنس کے اہداف و مقاصد کی بنیاد پر صہیونیزم اپنے عملی میدان سے قریب تر ہو گیا۔ ہرٹسل نے «یہودی ریاست و حکومت» کے لیے اپنے بیان میں کسی خاص علاقہ یا کسی معین سرزمین کا ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس نے سرزمین فلسطین کے لیے اپنی جدّیّت اور مصمّم ہونے کی صراحت کی تھی۔ خلاصہ یہ کہ ہرٹسل نے اس سلسلہ میں کسی طرح کی کوئی صراحت نہیں کی۔ اگر چہ وہاں پر موجود یہودیوں میں سے بعض نے بعض ممالک جیسے اوگانڈا، ارجنٹائن وغیرہ کے سلسلے میں پیشنہاد اور تجویزیں بھی پیش کیں۔ ہرٹسل نے دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنی کتاب میں اسی تحریک سے متعلق ایک بہت اہم تجویز پیش کی کہ: «یہودی نمائندگی کا ایک دفتر قائم کیا جائے جو صہیونی حزب کے سیاسی منصوبوں اور مذاکراتی پروگراموں کو مرتّب کرے اور ساتھ ہی ساتھ ایک یہودی کمپنی بھی بنائی جائے جس کے ذریعہ تحریک کی مالی مشکلیں حل ہوسکیں اور اس کی ضرورتیں اچھے طریقے سے پوری ہوسکیں۔[7]

بنابریں، صہیونیت کی تشکیل کے ابتدائی دور میں اس حزب کے رہنماؤں نے کسی خاص علاقہ اور کسی معین سرزمین کی طرف نہ ہی کوئی خاص توجہ دلائی اور نہ ہی زور دیا، بلکہ ان کا بنیادی اور اساسی مقصد «صہیونی ریاست» کا قیام اور اسی کے سایہ میں پوری دنیا کے یہودیوں کو یکجا کرنا تھا۔ پس «یہودی حکومت» کی تشکیل کا خیال صرف ایک معاون وسیلہ کی حیثیت کا حامل تھا۔ اسی وجہ سے صہیونیوں کے لیے اس مرکز کے انتخاب مقام کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ جیسا کہ اس سلسلہ میں «لئوپینکر» تحریر کرتا ہے کہ: «ہمارے لیے یہ لازم و ضروری نہیں ہے کہ ہم قہرا و جبرا اسی جگہ اقامت کریں جہاں کبھی ہماری حکومت ختم ہوئی تھی ۔۔۔، ہمیں تو صرف ایک قطعہ زمین کی ضرورت ہے جس کے ہم مالک بن سکیں اور وہاں رہ سکیں ۔۔۔، ہم اپنی قدس الاقدس یعنی اپنے عزیز وطن کو کھونے کے بعد بھی خدا اور مقدس کتاب کو جسے ہم نے حفاظت کے ساتھ رکھا ہے اسے وہاں لے کر جائیں گے۔ چونکہ انہوں نے ہی ہمارے وطن کو ارض مقدس میں تبدیل کیا ہے نہ کہ اردن اور اورشیلم نے۔[8]

صہیونی حکومت کے قیام میں دو اہم نظریے غالب تھے۔ اور جب تک صہیونیزم کا اصلی بانی ہرٹسل زندہ تھا اسے کسی بھی خاص خطہ یا معین سرزمین، خاص طور پر فلسطین کے سلسلہ میں کوئی خاص حساسیت نہیں تھی۔ انیسویں صدی عیسوی میں صہیونیوں کی چٹھی کانفرنس میں اوگانڈا کو حکومت کے مرکز کے عنوان سے پیش کیا گیا۔ اور اسی کانفرنس میں ہرٹسل نے یہ اعلان کیا کہ:

«مجھے اس بات میں کوئی شک و تردید نہیں ہے کہ یہودیوں کی نمائندگی کرنے والی کانفرنس میں اس تجویز کو حق پسندی کے ساتھ قبول کرلیا جائے گ۔ اور وہ تجویز یہ ہے کہ ایک یہودی آبادی والا خود مختارسوسائٹی جو ایک یہودی ڈھانچہ اور مقامی حکومت کا حامل ہو مشرقی افریقہ میں قائم کیا جائے، جس کا سربراہ ایک اعلیٰ رتبہ اور عظیم مرتبہ کا یہودی افسر ہو۔ اور یہ بھی بات یاد رہے جسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سارا کام برطانوی حکومت کی نگرانی میں انجام پائے گا.»۔[9]

اس سلسلہ میں ایک دوسرا نظریہ بھی پیش کیا گیا۔ اس نظریہ کے طرفدار اور حامی افراد ابتدا سے ہی خاص طور پر سرزمین فلسطین کی نسبت سے حساسیت کے شکار تھے چونکہ اسی سرزمین کو اپنا موعودہ سرزمین سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ اس نظریہ کے حامی افراد نے پہلے والے نظریہ کی رد میں اپنا اظہار خیال کیا، جن میں سے سر فہرست «حاییم وایزمن» تھا۔ اس نے بیان کیا کہ:

« جس علاقہ کی تجویز پیش کی گئی ہے وہ یا تو بہت سرد ہے یا بے انتہا گرم نیز ان کی آبادی اور ترقی میں برسوں وقت گزر جائے گا ساتھ ہی ساتھ ایک سنگین اور ناگفتہ بہ اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا.».[10]

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ صہیونیزم کی قیادت میں کچھ ایسے بھی گروہ شریک تھے جو مختلف امپریالیستی حکومت کے نمائندہ تھے۔ کچھ شخصیتیں جیسے «آلفرد نوسیک» جو جرمنی کے حامی تھے، ایک گروہ جیسے «حاییم وایزمن» انگلینڈ کے طرفدار تھے، اور دوسرے گروہ کے لوگ بھی کسی نہ کسی دوسرے امریالیستی حکومتوں کے طرفدار اور حامی تھے۔ اس سلسلہ میں تشتّت آراء، متعدد نظریات کا باعث بنے، جس کے نتیجہ میں صہیونی رہنماؤں کے درمیان کشمکش کا بازار گرم ہو گیا اور بالاخرہ برطانیہ کے طرفدار اور حامییوں کو «حاییم وایزمن» کی قیادت میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ صورت حال اس وقت پیش آئی جب برطانیہ کے جلسات میں ایک ایسا گروہ سامنے آیا جو ایک طولانی عرصے سے ہی سرزمین فلسطین پر نظریں جمائے ہوئے تھا اور جیسے ہی موقع فراہم ہوا ویسے ہی فلسطین میں اپنی ریست کا جھنڈا نصب کرکے حکومت قائم کرلی۔[11]

حوالہ جات

  1. آشوری، داریوش، دانشنامه سیاسی، تهران، انتشارات مروارید، ۱۳۸۰ش، ص۱۲۳.
  2. زعیتر، اکرم، سرگذشت فلسطین، ترجمه اکبر هاشمی رفسنجانی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ش، ص۹۲–۹۱.
  3. زعیتر، سرگذشت فلسطین، ص۹۲.
  4. زعیتر، سرگذشت فلسطین، ص۹۲.
  5. سوکولوف، ناحوم، تاریخ صهیونیسم، ترجمه داود حیدری، تهران، مؤسسه مطالعات تاریخ اسلام، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۳۸۵.
  6. سوکولوف، تاریخ صهیونیسم، ج۱، ص۳۸۵.
  7. ایوانف، یوری، صهیونیسم، ترجمه ابراهیم یونسی، تهران، مؤسسه انتشارات امیرکبیر، ۱۳۵۶ش، ص۱۴.
  8. ایوانف، یوری، صهیونیسم، ص۱۴.
  9. ایوانف، یوری، صهیونیسم، ص۲۰-۲۱.
  10. ایوانف، یوری، صهیونیسم، ص۸۴.
  11. ایوانف، یوری، صهیونیسم، ص۸۶.