اصول دین اور فروع دین میں فرق

ویکی پاسخ سے
نظرثانی بتاریخ 19:39، 22 دسمبر 2024ء از Ejazhmusavi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{شروع متن}} {{سوال}} اصول دین اور فروع دین کے درمیان فرق کو مکمل طور پر بیان کریں؟ {{پایان سوال}} {{پاسخ}} دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اصول دین کا تعلق اعتقادات سے ہے اور فروع دین کا تعلق اعمال اور رفتار سے ہے۔ اصول دین کے لیے یقین اور اطمینان ضرو...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
سؤال

اصول دین اور فروع دین کے درمیان فرق کو مکمل طور پر بیان کریں؟

دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اصول دین کا تعلق اعتقادات سے ہے اور فروع دین کا تعلق اعمال اور رفتار سے ہے۔ اصول دین کے لیے یقین اور اطمینان ضروری ہے، اور فروع دین میں تقلید جائز ہے۔ اصول دین میں انسان کو چاہیے کہ وہ عقل کے ذریعہ یقین تک پہنچے، لیکن فروع دین کو عقل کے ذریعہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جایگاہ

علمائے دین کہتے ہیں کہ ہر دین و شریعت میں اصول و فروع پایا جاتے ہیں۔ اصول سے مراد، دین کی بنیادیں اور اساسی چیزیں ہیں جن کی ابتدائی طور پر پابندی کرنا لازم و ضروری ہے، پھر اس کے بعد ان فروع کے اوپر عمل کرنا ضروری ہے جس کی بنیاد انہیں اصول کے اوپر رکھی گئی ہے۔[1]

بہت سے علمائے اسلام اس بات کے قائل ہیں کہ اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے نیز اصول دین میں یقین یا اطمینان کو دلیل کے اوپر مبنی ہونا چاہیے۔ البتہ اس بات کے اوپر علماء کے اجماع کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔ ایک دوسرا گروہ جس کے سرکردہ ابو حنیفہ، سفیان ثوری، اوزاعی، مالک، شافعی، احمد بن حبنل اور اہل حدیث ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ اعتقادی اصول پر استدلال واجب ہے اور اس کا ترک کرنا معصیت کے زمرہ میں شمار ہوتا ہے لیکن تقلید کے ذریعہ حصول ایمان کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی اصول دین میں بھی تقلید جائز ہے۔[2]

شیعہ علماء نے اصول دین کی تعداد پانچ بتائی ہیں جب کہ فروع دین کی تعداد آٹھ یا دس شمار کیا ہے۔ حتی کہ بسا اوقات ہر وہ چیز جو اصول کے ہم پلہ ہے اور عملی احکام میں شامل ہے تو اسے بھی فروع دین میں شمار کیا گیا ہے۔[3]

اصول دین

سانچہ:نوشتار اصلی علمائے اسلام توحید، نبوت اور معاد پر ایمان اور اعتقاد رکھنے کو اسلام کے اعتقادی اصول جانتے ہیں اور ان تینوں اصل کو دیانت اسلام کی اساس و بنیاد سمجھتے ہیں۔[4] اور علمائے شیعہ نے ان تینوں اصول کے علاوہ دو اور اصل یعنی عدل اور امامت کو بھی اصول دین کا جز مانا ہے۔ اسی وجہ سے شیعوں کے نزدیک اصول دین کی تعداد پانچ ہے۔[5]

فروع دین

سانچہ:نوشتار اصلی اسلامی ثقافت میں انسان کے عبادی اعمال و رفتار کے مجموعہ کے ایک اہم حصہ کو فروع دین کے اعتبار سے جانا و پہچانا جاتا ہے۔ اعتقادی مجموعہ جسے اصول دین سے یاد کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ فروع دین بھی اسلام کی عملی دیانت پر نظارت کرتا ہے۔ شیعہ اثنا عشری کے تعلیماتی نظام میں فروع دین کو نماز، روزہ، حج، زکات، خمس، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تولا اور تبرا کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اہل سنت کے مختلف مذاہب میں سے بعض نے ان میں سے بعض فروع پر اتنی زیادہ تاکید کا اظہار نہیں کیا ہے۔[6]

اصول دین اور فروع دین میں فرق

  • اصول دین ان اعتقادی مسائل کو کہا جاتا ہے جن میں عقل، معرفت اور اعتقاد کی شرط پائی جاتی ہے۔ لیکن فروع دین ان مسائل کو کہا جاتا ہے جن میں عمل حائز اہمیت ہے چاہے اب وہ عمل کسی فعل کو انجام دینے کی صورت میں ہو یا اسے ترک کرنے کی صورت میں ہو پس دونوں صورت میں عمل کرنا لازم ہے۔[7]
  • دینی عقائد کے بخش کو «اصول دین» اور عملی احکام کے بخش کو «فروع دین» کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔
  • اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے، لیکن فروع دین میں تقلید کا دروازہ کھلا ہے اس میں تقلید جائز ہے۔[8] دین کے عملی مسائل میں دین کے ماہرین کی طرف رجوع اور ان کے اوپر اعتماد کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی اعتماد اور ان کی باتوں پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔[9] لیکن اصول دین میں انسان کو چاہیے کہ وہ خود تحقیق اور مطالعہ و مباحثہ کے ذریعہ مرحلۂ یقین و اطمینان تک پہنچے۔
  • اصول دین میں انسان کو چاہیے کہ عقل کے ذریعہ یعنی دلیل عقلی کی بنا پر یقین تک پہنچے لیکن فروع دین کے لیے لازم نہیں ہے کہ اسے عقل کے ذریعہ ثابت کیا جائے۔
  • انسان کے اعمال و رفتار میں سے کچھ اہم اعمال عبادات کی شکل میں ہیں جو اسلامی ثقافت میں «فروع دین» کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں۔ اور یہی فروع دین اعتقادی مجموعہ جسے «اصول دین» سے یاد کیا جاتا ہے اس کے ساتھ اسلام کی عملی دیانت کے پہلووں پر نظارت کرتا ہے۔[10]
  • اصول دین انسان کے افکار و عقائد سے جڑے ہوتے ہیں اسی وجہ سے انہیں ایمان اور اعتقاد کی صورت میں ہی ہونا چاہیے۔ اور فروع دین انسان کے عمل، کردار اور ان کے رویّوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ حقیقت میں اصول دین انسان کی فکری، نظریاتی اور عقائدی شناخت اور ساخت کو تشکیل دیتے ہیں نیز مومنوں کے رفتار و کردار کے طور طریقوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ اصول دین، بنیاد دین اور اساس دین کو تشکیل دیتے ہیں بغیر ان کے دین کی بنیاد مضبوط نہیں ہوسکتی ہے۔ اس کے اصول ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑا تو دین اور اس کے مقاصد تباہ و برباد ہوجائیں گے۔[11]
  • اصول دین میں خبر دی جاتی ہے خبری ہیں اور اس میں وصف بیان کیا جاتا ہے لیکن فروع دین انشائی ہیں اس میں دستور اور حکم دیا جاتا ہے، امر و نہی ہوتی ہے برخلاف اصول دین کے۔
  • فروع دین میں نسخ پایا جاتا ہے یعنی یک حکم دوسرے حکم کے ذریعہ منسوخ ہوسکتا ہے لیکن اصول دین میں کسی بھی اعتبار سے یہ بات نہیں پائی جاتی ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. سجادی، جعفر، فرهنگ معارف اسلامی، کومش، ج۱، ص۲۲۳.
  2. جمعی از محققین، «اصول دین»، دانشنامه کلام اسلامی، ص۵۱.
  3. خطیبی کوشکک، محمد و همکاران، فرهنگ شیعه، قم، زمزم هدایت، ۱۳۸۶ش، ص۳۶۰.
  4. جمعی از نویسندگان، «اسلام»، دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج۸، ذیل مدخل.
  5. جمعی از محققین، «اصول دین»، دانشنامه کلام اسلامی، ص۵۱.
  6. جمعی از نویسندگان، «اسلام»، دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج۸، ذیل مدخل.
  7. جمعی از محققین، «اصول دین»، دانشنامه کلام اسلامی، ص۵۱.
  8. خطیبی کوشکک، محمد و همکاران، فرهنگ شیعه، قم، زمزم هدایت، ۱۳۸۶ش، ص۳۵۹.
  9. کاشفی، محمدرضا، کلام شیعه، قم، پژوهشگاه علوم و فرهنگ اسلامی، ۱۳۸۶ش، ص۲۵۷.
  10. جمعی از نویسندگان، «اسلام»، دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج۸، ذیل مدخل.
  11. نشریه حوزه، مخلصی عباس، سیری در اندیشه‌های کلامی، ج۸۱، ص۸۹
  12. خطیبی کوشکک، محمد و همکاران، فرهنگ شیعه، قم، زمزم هدایت، ۱۳۸۶ش، ص۳۵۹.