محکم و متشابہ

ویکی پاسخ سے
نظرثانی بتاریخ 20:00، 22 دسمبر 2024ء از Ejazhmusavi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{شروع متن}} {{سوال}} قرآن مجید میں پائی جانے والی محکم اور متشابہ آیتوں سے کیا مراد ہے؟ {{پایان سوال}} {{پاسخ}} '''محکم و متشابہ''' آیتوں کے بارے میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر۷ میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ اور آیات محکم کو اصطلاح میں «ام الکتاب» ب...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
سؤال

قرآن مجید میں پائی جانے والی محکم اور متشابہ آیتوں سے کیا مراد ہے؟

محکم و متشابہ آیتوں کے بارے میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر۷ میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ اور آیات محکم کو اصطلاح میں «ام الکتاب» بھی کہا جاتا ہے۔ محکم کا مطلب مستحکم اور ہر قسم کے خلل اور خرابی سے محفوظ ہونا ہے۔ اور اسی کے مقابلہ میں متشابہ ہے جو مشابہ، ہم شکل اور اسی جیسا کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، اس طریقہ سے کہ یہی مشابہت حق و باطل کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

قرآن مجید میں متشابہ آیتوں کے موجود ہونے پر کئی دلیلیں پیش کی گئی ہیں جن میں سے کچھ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے: عظیم معانی بیان کرنے میں الفاظ کی کمی، انسان کے افکار و خیالات میں محدودیت خاص طور پر آخرت (ما ورائے طبیعت) اور اس عالم کے علاوہ دوسرے عالم کے بارے میں افکار و خیالات کی محدودیت، عقل و خرد اور فکر و خیال کے حاملین افراد کو قرآن مجید میں غور و فکر کرنے کی دعوت، لوگوں کو «راسخون فی العلم» کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دینا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔

محکم و متشابہ کے لغوی اور اصطلاحی معانی

محکمات

«محکم» مستحکم اور خلل ناپذیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جو «حَکَمَ حَکْماً» سے ماخوذ اور «مَنَعَ مَنعاً» کے معنی میں ہے۔ یعنی ہر طرح کی خلل اندازی، ناسازگاری، بربادی وغیرہ سے روکنا اور محفوظ کرنا ہے۔ راغب اصفہانی کہتے ہیں:

«حکم» اصل میں منع کرنے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے بالخصوص برائی سے روکنا۔[1]

اسی طرح کہا گیا ہے کہ ہر وہ بات، ہر وہ قول جو کسی بھی شک و شبہ سے خالی ہو اور غلط فہمی کا شکار نہ بن سکے، مستحکم اور خلل ناپذیر ہو تو اسے «محکم» کہتے ہیں۔[2]

متشابہ

لفظ «متشابہ» «شُبْه» سے مشتق (اسم مصدر) «مثل، شبہیہ، ہم شکل» کے معنی میں ہے یا «شَبَه» (مصدر) ہے جس کا معنی «ایک جیسا ہونا، ہم شکل ہونا » ہے، اس طرح سے کہ اس مشابہت میں حقیقت اور غیر حقیقت میں پتہ چل نہیں پاتا کہ حقیقت کیا ہے یعنی حقیقت پوشیدہ ہوجاتی ہے اور حق و باطل کا آپس میں امتزاج ہوجاتا ہے جس سے پتہ چل نہیں پاتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے جس کی وجہ سے انسان غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ راغب اصفہانی قرآن مجید میں موجود اس طرح کی آیتوں کو آیات متشابہات سمجھتے ہیں جس کی تفسیر کرنا ایک مشکل امر ہے، کیوں کہ اس کا جو ظاہر ہے وہ حقیقت میں ویسا نہیں ہوتا بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے مشابہت رکھتا ہے۔[3] یا ہادی معرفت کے بقول: کلام حق یعنی قرآن مجید جب بھی حق و حقیقت کے علاوہ کوئی اور صورت میں جلوہ گر ہو تو باطل سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے جسے اصطلاح میں «متشابہ» کہا جاتا ہے۔[4]

قرآن مجید میں آیات محکمات

آیات محکمات ان آیتوں کو کہا جاتا ہے جن کے معانی اتنے واضح و روشن ہوں کہ ان میں کسی طرح کی گفتگو، قیل و قال اور بحث کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہ ہو؛ جیسے «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» کہو کہ وہ اللہ ہے، یتکا و بے نظیر ہے۔ ان آیتوں کو قرآن مجید میں ام الکتاب سے یاد کیا گیا ہے۔[5] ام الکتاب، جڑ اور اساس و بنیاد کے معنی میں ہے جنہیں متشابہ آیات کا مآخذ، مرجع اور ان کی تفسیر کرنے والا جانا گیا ہے۔[6]

قرآن مجید میں آیات متشابہات

خود قرآنی آیت کے مطابق «هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ»[7] وہ ذات وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے جس میں سے کچھ آیتیں محکم اور واضح ہیں جو «ام الکتاب» (اصل کتاب) ہیں اور کچھ آیتیں متشابہ ہیں۔

قرآن کریم میں آیات متشابہات کے وجود کو آیات محکمات کے مقابلہ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں متشابہ آیتوں کا وجود اس وجہ سے ہوا کہ ان کے الفاظ مختصر ہیں لیکن ان کے معانی وسیع اور عمیق ہیں۔ مثال کے طور پر وہ آیتیں جو خود خداوند متعال اور اس کے افعال کے بارے میں مجاز، کنایہ، یا استعارہ کے طور پر استعمال کی گئی ہیں۔ مثلاً وہ آیات جو خداوند متعال اور اس کے افعال کے بارے میں مجاز، کنایہ یا استعارہ کے طور پر استعمال کی گئی ہیں۔ جیسے: «فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَکِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللَّهَ رَمَی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْهُ بَلاءً حَسَنًا إِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ»[8] پس تم لوگوں نے ان کفار کو قتل نہیں کیا ہے بلکہ انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے موت کے گھاٹ اتارا ہے، اور پیغمبر آپ نے سنگریزے نہیں پھیکے ہیں بلکہ خدا نے پھیکے ہیں تاکہ اپنی طرف سے مومنوں کا بہتر طریقہ سے آزمائش کرے، خداوند متعال سننے والا، جاننے والا ہے۔

بعض لوگ مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سارا کام خداوند متعال انجام دیتا ہے انسان کو اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کا حق و اختیار نہیں ہے جب کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔[9]

آیت پر غور و خوض کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ خداوند عالم اس آیت میں مسلمانوں کے قتل کرنے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیر چلانے کی نفی نہیں کررہا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ تمہارے فکر و خیال میں یہ بات بالکل نہ آئے کہ کفار پر غلبہ ایک عام، معمولی اور طبعی معاملہ تھا۔ بلکہ اس امر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خدا ہی تھا جس نے ملائکہ کو نازل کیا اور انہیں کے ذریعہ مومنین کو مستحکم بنا کر کفار کو مرعوب و خوفزدہ کیا، اور وہ سنگریزے جنہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف پھینکی تھیں اسی کے ذریعہ انہیں فرار کرنے پر مجبور کیا اور مومنین کو ان کے قتل اور اسیر کرنے پر طاقت و قدرت عطا فرمائی۔[10]

قرآن مجید کی ایک اور آیت جس میں ارشاد ہوتا ہے: «یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَیُدْعَوْنَ إِلَی السُّجُودِ فَلا یَسْتَطِیعُونَ»۔[11] اس دن کو یاد کرو جس دن تمہاری پنڈلی کھول دی جائے گی اور انہیں سجدوں کی دعوت دی جائے گی تو یہ سجدہ کرنے کے لائق بھی نہیں رہیں گے۔

عربوں کے عام استعمال میں لفظ «ساق» کا استعمال کنایہ کے طور پر کسی امر میں اظہار شدت اور سختی کے لیے ہوتا ہے۔ «کشف ساق» کنایہ کے طور پر کسی کام کو انجام دینے پر مکمل آمادگی کو کہتے ہیں، یعنی کسی کام کو انجام دینے پر کمر کس لینے کو «کشف ساق» کہتے ہیں۔ کیوں کہ اس کا لازمہ یہ ہے کہ پیر کی پنڈلی کو ظاہر کیا جائے۔ مذکورہ آیت عربوں کے عام استعمال کے اعتبار سے اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ روز قیامت حالات بہت سخت اور ناسازگار ہوجائیں گے، اور کفار سخت پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے۔[12]

اہل سنت کے دو مکتب فکر «اشاعرہ» اور «اہل تجسم» (جو اللہ کے جسم کے قائل ہیں) نے اس آیت میں لفظ «ساق» کا ظاہری معنی مراد لیا ہے اور اس بات کے قائل ہیں کہ «ساق» سے مراد خداوند متعال کا پاؤں ہے جو اس دن (قیامت کے دن) برہنہ ہوجائے گا اور کفار کو سجدے کرنے کا حکم ہوگا لیکن وہ سجدے نہیں کرسکیں گے۔[13]

قرآن مجید میں آیات متشابہ کے وجود پر دلائل

قرآن مجید میں آیات متشابہ کے وجود کی حکمت کے سلسلے میں متعدد وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ جن میں سے کچھ کو ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے:

  • وہ الفاظ اور عبارتیں جو انسانوں کی گفتگو میں استعمال کی جاتی ہیں وہ صرف روز مرہ کی ضرورتوں کے لیے بنائی گئی ہیں، اور یہ الفاظ کی کمی اور تنگی ہے جو ماورائی معانی اور مطلوب کو پہنچانے سے قاصر ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کی متشابہ آیتوں کا ایک قابل توجہ حصہ وجود میں آیا اور ان آیتوں یا آیتوں میں پائے جانے والے بعض کلمات کی تفسیر، تشریح، تأویل اور توضیح کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مطلوبہ معانی تک پہنچا جاسکے۔[14]
  • قرآن مجید کے بہت سے حقائق دوسرے عالم (آخرت ) کے لیے ہیں جو انسان کے افکار و خیالات کی پرواز سے کہیں بہت دور ہیں اور انسان ان کی گہرائیوں اور گیرائیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہماری یہ کوتاہ فکری اور ان معانی کا اعلیٰ و عظیم ہونا قرآن مجید میں آیات متشابہات کے وجود کی ایک اور وجہ بنتی ہے۔ جیسے قیامت وغیرہ سے مربوط کچھ آیتیں۔[15]
  • پورا کا پورا قرآن محکم ہے، لیکن جب یہ فکر بشر تک پہنچتا ہے تو اس کی کچھ آیتوں میں انسان کو تشابہ پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ بارش زمین پر نازل ہونے سے پہلے بے کف (جھاگ) ہوتی ہے یعنی اس میں جھاگ اور بلبلے وغیرہ نہیں ہوتے لیکن جب وہی بارش کے قطرات زمین پر پڑکر رواں ہوتے ہیں تو اس میں جھاگ وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں، اسی طریقہ سے قرآن کی آیتیں آسمان معرفت سے متشابہ نازل نہیں ہوتی ہیں بلکہ افکار بشری کے نقائص اور فہم و ادراک میں کمی کی بنا پر تشابہ ایجاد ہوجاتا ہے۔[16]
  • علماء و دانشوران قوم اپنی سوچ و فکر کو بروے کار لاتے ہیں اور غور و خوض کے بعد خداوند متعال کے حقیقی مقصد اور حقیقی مراد متکلم تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اسی وجہ سے ان کی فضیلت و برتری کے درجات دوسرے عام لوگوں پر بڑھ جاتے ہیں اور وہ بلند و عظیم مراتب تک پہنچ جاتے ہیں جس تک ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا.[17]
  • اس سلسلہ میں ایک اور دلیل، لوگوں کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کرنا ہے جس کی تائید و تصدیق روایتوں کے ذریعہ بھی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اس طرح کی آیتوں کا پایا جانا، لوگوں کی الٰہی رہنماؤں، «راسخون فی العلم»، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اوصیائے برحق کی طرف شدید ضروریات کو واضح و روشن کرتا ہے نیز سبب بنتا ہے کہ لوگ اپنی علمی تشنگی کو بجھانے کے لیے ان کی طرف رجوع کریں۔[18]

حوالہ جات

  1. راغب اصفهانى، حسين بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، بیروت، دار الشاميه، چاپ اول، ۱۴۱۲ق، ص۲۴۸.
  2. معرفت، محمد هادی، علوم قرآنی، ص۲۷۱.
  3. راغب اصفهانى، حسين بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، بیروت، دار الشاميه، چاپ اول، ۱۴۱۲ق، ص۴۴۳.
  4. معرفت، محمد هادی، علوم قرآنی، ص۲۷۳.
  5. سوره آل عمران، آیه ۷.
  6. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ دهم، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۴۳۲.
  7. سوره آل عمران: 7
  8. سوره انفال:۱۷
  9. رضا، محمد رشيد، تفسير القرآن الحكيم الشهير بتفسير المنار، بیروت، دار المعرفه، چاپ اول، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۱۳۸.
  10. طباطبايى، محمدحسين، الميزان فی تفسیر القرآن، ترجمه: محمد باقر موسوی همدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامى، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش، ج۹، ص۴۷.
  11. سوره قلم:۴۲
  12. زمخشرى، محمود بن عمر، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل و عيون الأقاويل فى وجوه التأويل، بیروت، دار الكتاب العربي، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۵۹۳.
  13. معرفت، محمد هادی، علوم قرآنی، ص۲۸۵.
  14. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ دهم، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۴۳۲.
  15. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ دهم، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۴۳۲.
  16. جوادی آملی، عبد الله، قرآن در قرآن، ص۴۱۶.
  17. طوسى، محمد بن حسن، التبيان في تفسير القرآن، بیروت، دار إحياء التراث العربي، چاپ اول، ج۲، ص۳۹۶.
  18. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ دهم، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۴۳۲.