"بعثت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کا دین" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی پاسخ سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
 
(2 صارفین 10 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{شروع متن}}
{{شروع متن}}
{{سوال}}
{{سوال}}
بعثت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کا دین کیا تھا؟
بعثت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کا دین کیا تھا؟
{{پایان سوال}}
{{پایان سوال}}
{{پاسخ}}
{{پاسخ}}
[[نبوت]] سے پہلے [[حضرت محمدؐ]] کے [[دین]] کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں سے [[یہودیت]]، [[مسیحیت]]، [[دین حنیف]] (حضرت ابراہیمؑ کی شریعت) قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے باوجود اس سلسلے میں حقیقت یہی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ بعثت سے پہلے [[یکتا پرست]] تھے اور ہمیشہ بتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔ اس کے بارے میں کچھ دلائل بیان کئے جاتے ہیں :
[[نبوت]] سے پہلے [[حضرت محمدؐ]] کے [[دین]] کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں سے [[یہودیت]]، [[مسیحیت]]، [[دین حنیف]] (حضرت ابراہیمؑ کی شریعت) قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے باوجود اس سلسلے میں حقیقت یہی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ بعثت سے پہلے [[یکتا پرست]] تھے اور ہمیشہ بتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔ اس کے بارے میں کچھ دلائل بیان کئے جاتے ہیں :


* [[حضرت علیؑ]] نے ان لوگوں کے سامنے جو [[پیغمبراکرمؐ]] کے واقعے سے واقف تھے ان کے [[گناہ]] اور [[شرک]] سے پاک اور منزہ ہونے پر تاکید کی ہے۔ <ref>صحیفہ علویہ، ص ۳۴۲ و ۵۰۳؛ و بحارالانوار، ج ۱۰، ص ۴۵.</ref> اور ان کے خاندان کے یکتا پرست ہونے پر زور دیا ہے۔ <ref>نهج البلاغه، خطبه ۹۴، ۹۶، ۲۱۴.</ref> تاریخی دلائل اور [[روایات]] کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حضرت محمدؐ یکتا پرست خاندان سے تھے اور ان کے آباء و اجداد دین حنیف کے پیروکار اور [[حضرت ابراھیم]] کے ماننے والے تھے۔  
* [[حضرت علیؑ]] نے ان لوگوں کے سامنے جو [[پیغمبراکرمؐ]] کی زندگی سے واقف تھے، آپ کے [[گناہ]] اور [[شرک]] سے پاک اور منزہ ہونے پر تاکید کی ہے۔ <ref>صحیفہ علویہ، ص ۳۴۲ و ۵۰۳؛ و بحارالانوار، ج ۱۰، ص ۴۵.</ref> اور ان کے خاندان کے یکتا پرست ہونے پر زور دیا ہے۔ <ref>نهج البلاغه، خطبه ۹۴، ۹۶، ۲۱۴.</ref> تاریخی دلائل اور [[روایات]] کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حضرت محمدؐ یکتا پرست خاندان سے تھے اور ان کے آباء و اجداد دین حنیف کے پیروکار اور [[حضرت ابراھیم]] کے ماننے والے تھے۔  


* بچپن میں حضرت محمدؐ نے [[شام]] کے سفر کے دوران [[بحیرا]] نامی [[راہب]] سے ملاقات کی۔ جس وقت راہب نے حضرت محمدؐ میں پیغمبری کی نشانیاں دیکھیں تو اس نے آپ کو آزمانے کے لیے دو بتوں [[لات]] اور [[عزی]] کی قسم دی۔ پیغمبر اکرمؐ  نے بحیرا کے جواب میں فرمایا:لا تَسألنی بِهِما، فَوَ اللّه ما أبغضتُ شَیئَاً بُغضهما مجھے ان دو بتوں کی قسم نہ دو خدا کی قسم میرے نزدیک ان دونوں سے زیادہ منفور کچھ نہیں ہے۔ <ref>شرح الشفاء، ج ۲، ص ۲۰۸؛ ر.ک. ابن کثیر، السیرة النبویہ، ج ۱، ص ۲۴۵.</ref>  
* بچپن میں حضرت محمدؐ نے [[شام]] کے سفر کے دوران [[بحیرا]] نامی [[راہب]] سے ملاقات کی۔ جس وقت راہب نے حضرت محمدؐ میں پیغمبری کی نشانیاں دیکھیں تو اس نے آپ کو آزمانے کے لئے دو بتوں [[لات]] اور [[عزی]] کی قسم دی۔ پیغمبر اکرمؐ  نے بحیرا کے جواب میں فرمایا:{{عربی متن|لا تَسألنی بِهِما، فَوَ اللّه ما أبغضتُ شَیئَاً بُغضهما مجھے ان دو بتوں کی قسم نہ دو خدا کی قسم میرے نزدیک ان دونوں سے زیادہ منفور کچھ نہیں ہے۔ <ref>شرح الشفاء، ج ۲، ص ۲۰۸؛ ر.ک. ابن کثیر، السیرة النبویہ، ج ۱، ص ۲۴۵.</ref>  
* تاریخی مآخذ میں رسول اکرمؐ کی بعثت سے پہلے جن عبادی اعمال کا تذکرہ ملتا ہے ان میں [[نماز]] ، [[روزہ]] ، [[حج]] شامل ہیں۔ [[غار حرا]] میں عزلت نشینی آپ کی دیرینہ روایت سمجھی جاتی ہے۔ پیغمبر اکرمﷺ کا [[حج]] بھی مشرکین کے حج کہ جس میں شرک پایا جاتا تھا، سے موافق نہیں تھا اور مناسک میں پیغمبر اکرمؐ کا [[حج]] ، [[حج ابراہیمی]] کے مطابق تھا جیسے [[عرفات]] میں وقوف وغیرہ۔ <ref>شرح الشفاء، ج ۲، ص ۲۰۹.</ref>
* تاریخی مآخذ میں رسول اکرمؐ کی بعثت سے پہلے جن عبادی اعمال کا تذکرہ ملتا ہے ان میں [[نماز]] ، [[روزہ]] ، [[حج]] شامل ہیں۔ [[غار حرا]] میں عزلت نشینی آپ کی دیرینہ روایت سمجھی جاتی ہے۔ پیغمبر اکرمﷺ کا [[حج]] بھی مشرکین کے حج سے موافق نہیں تھا کیونکہ مشرکین کے حج میں شرک پایا جاتا تھا، اور مناسک میں پیغمبر اکرمؐ کا [[حج]] ، [[حج ابراہیمی]] کے مطابق تھا جیسے [[عرفات]] میں وقوف وغیرہ۔ <ref>شرح الشفاء، ج ۲، ص ۲۰۹.</ref>


== مآخذ ==
== مآخذ ==
* یہ مضمون حسن یوسفیان کی مندرجہ ذیل  کتاب سے ماخوذ ہے: ''پرسمان عصمت''، مرکز مطالعات و پژوہش‌ہای فرہنگی حوزه علمیہ، قم، ۱۳۸۰شمسی


یہ مضمون حسن یوسفیان کی مندرجہ ذیل  کتاب سے ماخوذ ہے: ''پرسمان عصمت''، مرکز مطالعات و پژوہش‌ہای فرہنگی حوزه علمیہ، قم، ۱۳۸۰شمسی
{{پانویس|۲}}


{{پانویس|۲}}
[[fa:دین پیامبر اسلام پیش از بعثت]]
[[ar:دین النبي الاعظم ما قبل البعثة]]
[[en:Religion of the Prophet of Islam Before His Mission]]
[[es:La religión del Profeta del Islam antes de su misión profética]]
[[ps:د اسلام د پېغمبر (ص) دین د بعثت نه مخکې]]


   
   


[[زمرہ :پیغمبر اسلام]]
[[زمرہ :پیغمبر اسلام]]
[[زمرہ:حنیفیت]]
[[زمرہ:حنیفیت]]

حالیہ نسخہ بمطابق 18:06، 9 اکتوبر 2022ء

سؤال

بعثت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کا دین کیا تھا؟

نبوت سے پہلے حضرت محمدؐ کے دین کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں سے یہودیت، مسیحیت، دین حنیف (حضرت ابراہیمؑ کی شریعت) قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے باوجود اس سلسلے میں حقیقت یہی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ بعثت سے پہلے یکتا پرست تھے اور ہمیشہ بتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔ اس کے بارے میں کچھ دلائل بیان کئے جاتے ہیں :

  • حضرت علیؑ نے ان لوگوں کے سامنے جو پیغمبراکرمؐ کی زندگی سے واقف تھے، آپ کے گناہ اور شرک سے پاک اور منزہ ہونے پر تاکید کی ہے۔ [1] اور ان کے خاندان کے یکتا پرست ہونے پر زور دیا ہے۔ [2] تاریخی دلائل اور روایات کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حضرت محمدؐ یکتا پرست خاندان سے تھے اور ان کے آباء و اجداد دین حنیف کے پیروکار اور حضرت ابراھیم کے ماننے والے تھے۔
  • بچپن میں حضرت محمدؐ نے شام کے سفر کے دوران بحیرا نامی راہب سے ملاقات کی۔ جس وقت راہب نے حضرت محمدؐ میں پیغمبری کی نشانیاں دیکھیں تو اس نے آپ کو آزمانے کے لئے دو بتوں لات اور عزی کی قسم دی۔ پیغمبر اکرمؐ نے بحیرا کے جواب میں فرمایا:{{عربی متن|لا تَسألنی بِهِما، فَوَ اللّه ما أبغضتُ شَیئَاً بُغضهما مجھے ان دو بتوں کی قسم نہ دو خدا کی قسم میرے نزدیک ان دونوں سے زیادہ منفور کچھ نہیں ہے۔ [3]
  • تاریخی مآخذ میں رسول اکرمؐ کی بعثت سے پہلے جن عبادی اعمال کا تذکرہ ملتا ہے ان میں نماز ، روزہ ، حج شامل ہیں۔ غار حرا میں عزلت نشینی آپ کی دیرینہ روایت سمجھی جاتی ہے۔ پیغمبر اکرمﷺ کا حج بھی مشرکین کے حج سے موافق نہیں تھا کیونکہ مشرکین کے حج میں شرک پایا جاتا تھا، اور مناسک میں پیغمبر اکرمؐ کا حج ، حج ابراہیمی کے مطابق تھا جیسے عرفات میں وقوف وغیرہ۔ [4]

مآخذ

  • یہ مضمون حسن یوسفیان کی مندرجہ ذیل کتاب سے ماخوذ ہے: پرسمان عصمت، مرکز مطالعات و پژوہش‌ہای فرہنگی حوزه علمیہ، قم، ۱۳۸۰شمسی
  1. صحیفہ علویہ، ص ۳۴۲ و ۵۰۳؛ و بحارالانوار، ج ۱۰، ص ۴۵.
  2. نهج البلاغه، خطبه ۹۴، ۹۶، ۲۱۴.
  3. شرح الشفاء، ج ۲، ص ۲۰۸؛ ر.ک. ابن کثیر، السیرة النبویہ، ج ۱، ص ۲۴۵.
  4. شرح الشفاء، ج ۲، ص ۲۰۹.