بعثت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کا دین

ویکی پاسخ سے
نظرثانی بتاریخ 16:29، 16 اگست 2022ء از Mbaqirraza (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{آغاز تحریر}} {{سوال}} بعثت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کا دین کیا تھا؟ {{سوال کا اختتام}} {{جواب}} نبوت سے پہلے حضرت محمدؐ کے دین کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں سے یہودیت، مسیحیت، دین حنیف (حضرت ابراہیمؑ کی شریعت) قابل ذکر...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

سانچہ:آغاز تحریر

سؤال

بعثت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کا دین کیا تھا؟


سانچہ:سوال کا اختتام


سانچہ:جواب

نبوت سے پہلے حضرت محمدؐ کے دین کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں سے یہودیت، مسیحیت، دین حنیف (حضرت ابراہیمؑ کی شریعت) قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے باوجود اس سلسلے میں حقیقت یہی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ بعثت سے پہلے یکتا پرست تھے اور ہمیشہ بتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔ اس کے بارے میں کچھ دلائل بیان کئے جاتے ہیں :

  • حضرت علیؑ نے ان لوگوں کے سامنے جو پیغمبراکرمؐ کے واقعے سے واقف تھے ان کے گناہ اور شرک سے پاک اور منزہ ہونے پر تاکید کی ہے۔ [1] اور ان کے خاندان کے یکتا پرست ہونے پر زور دیا ہے۔ [2] تاریخی دلائل اور روایات کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حضرت محمدؐ یکتا پرست خاندان سے تھے اور ان کے آباء و اجداد دین حنیف کے پیروکار اور حضرت ابراھیم کے ماننے والے تھے۔
  • بچپن میں حضرت محمدؐ نے شام کے سفر کے دوران بحیرا نامی راہب سے ملاقات کی۔ جس وقت راہب نے حضرت محمدؐ میں پیغمبری کی نشانیاں دیکھیں تو اس نے آپ کو آزمانے کے لیے دو بتوں لات اور عزی کی قسم دی۔ پیغمبر اکرمؐ نے بحیرا کے جواب میں فرمایا:لا تَسألنی بِهِما، فَوَ اللّه ما أبغضتُ شَیئَاً بُغضهما مجھے ان دو بتوں کی قسم نہ دو خدا کی قسم میرے نزدیک ان دونوں سے زیادہ منفور کچھ نہیں ہے۔ [3]
  • تاریخی مآخذ میں رسول اکرمؐ کی بعثت سے پہلے جن عبادی اعمال کا تذکرہ ملتا ہے ان میں نماز ، روزہ ، حج شامل ہیں۔ غار حرا میں عزلت نشینی آپ کی دیرینہ روایت سمجھی جاتی ہے۔ پیغمبر اکرمﷺ کا حج بھی مشرکین کے حج کہ جس میں شرک پایا جاتا تھا، سے موافق نہیں تھا اور مناسک میں پیغمبر اکرمؐ کا حج ، حج ابراہیمی کے مطابق تھا جیسے عرفات میں وقوف وغیرہ۔ [4]


مآخذ

یہ مضمون حسن یوسفیان کی کتابپرسمان عصمت سے ماخوذ ہے جو مرکز مطالعات و پژوہش‌ہای فرہنگی حوزه علمیہ، قم، ۱۳۸۰شمسی

  1. صحیفہ علویہ، ص ۳۴۲ و ۵۰۳؛ و بحارالانوار، ج ۱۰، ص ۴۵.
  2. نهج البلاغه، خطبه ۹۴، ۹۶، ۲۱۴.
  3. شرح الشفاء، ج ۲، ص ۲۰۸؛ ر.ک. ابن کثیر، السیرة النبویہ، ج ۱، ص ۲۴۵.
  4. شرح الشفاء، ج ۲، ص ۲۰۹.