آخرت پر ایمان کے اثرات

  1. تغییر_مسیر الگو:پاسخ
سؤال

آخرت اور قیامت پر ایمان کے انسانی زندگی پر کیا اثرات ہیں؟

سانچہ:اصول دین و فروع دین

آخرت پر ایمان، انسانی عقائد، انسانی رویوں اور اخلاقیات پر اس قدر اثرگذار ہے کہ توحید پر ایمان بھی ایسا اثر نہیں رکھتا۔ آخرت اور قیامت پر ایمان، اسلام کے بنیادی اعتقادات میں سے تیسرا رکن شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص قیامت کو تسلیم نہ کرے تو گویا اُس نے دوسرے دو بنیادی ارکان (یعنی توحید اور نبوت) کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ دینِ اسلام میں داخل نہیں ہوا ہے۔[1]

جو شخص قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ دنیاوی زندگی عارضی ہے۔ اور کائنات ابدی اور دائمی عالم کی جانب گامزن ہے۔ اور جب انسان دنیا کی حقیقت اور اس کے عارضی ہونے کے بارے میں اس نظریہ کا حامل ہو تو انسان اپنے احساسات اور اندرونی جذبات کو قابو میں رکھتا ہے اور انہیں اُس مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے جو اُس کے سامنے ہے۔ قیامت اور الہی عقاب و ثواب پر ایمان، انسان کے اندر ذمہ داریوں کو بجالانے کے جذبے کو قوت بخشتا ہے۔ اسی طرح قیامت پر ایمان، اجتماعی قوانین کی پابندی اور دوسروں کے حقوق کے احترام کی ضمانت بھی ہے۔

دنیاوی زندگی کے عارضی ہونے کا علم

قیامت اور آخرت پر ایمان اور اسے یاد رکھنے کے انسانی فکر پر اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اور دنیا کو حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ خود کو اس بے ثبات دنیا کا حصہ سمجھتا ہے جو ایک دائمی اور ابدی عالم کی جانب گامزن ہے.[2]

جذبات کو قابو میں رکھنا اور خوبیوں کی پرورش

جب کوئی انسان اس عارضی دنیا کو حقیقت پسند نگاہ سے دیکھتا ہے، تو وہ اپنے جذبات اور اندرونی خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے اور اس مقصد کے مطابق جو اس کے سامنے ہے قدم بڑھاتا ہے۔ قیامت اور ثواب و عقاب الہی پر ایمان، انسان کو اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے کا پابند بناتا ہے۔ جو شخص آخرت اور اس میں سخت سزاؤں پر ایمان رکھتا ہے، وہ لاپرواہ نہیں ہوسکتا۔ عارضی دنیا اور ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کا موازنہ، انسان کو آخرت میں ابدی آسانیاں اور سکون حاصل کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔

در حقیقت قیامت پر ایمان، موت اور قیامت کو یاد رکھنا، انسان کے سامنے سے غفلت کے پردے ہٹا دیتا ہے اور انسان کو آخرت کی ابدی زندگی کی جانب متوجہ کردیتا ہے، تاکہ وہ گناہ، جرم اور فساد سے بچ سکے۔ لہذا اپنی خواہشات اور جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے سب سے اہم راستہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ہمارا انجام بھی موت ہے اور ہم بہت جلد اس دنیا سے دوسرے عالم میں منتقل ہوجائیں گے، جہاں ہمیں اپنے اعمال، کردار اور عقائد کے نتائج سے روبرو ہونا ہے۔

اگر انسان کی تربیت موت اور آخرت کو یاد رکھنے کے ساتھ ہو، تو یہ اعتقاد ایک "عملی ضمانت" فراہم کرتا ہے۔ اور انسان اپنے اسی عقیدے اور یقین کی بنیاد پر اپنے تمام اخلاق، کردار اور اعتقادات کو منظم کرتا ہے۔ لیکن جو شخص موت اور قیامت کی یاد سے غافل ہے، اس کے لیے قانون کی پاسداری کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی، اور وہ ہر کام انجام دیتا ہے۔ پس موت، قیامت اور آخرت کو یاد رکھنا اور ان پر ایمان، نہ صرف یہ کہ انسان کے جذبات اور دوسروں کے حقوق کو ضائع کرنے کی طبیعت کو قابو میں رکھتا ہے بلکہ انسانی خوبیوں کی پرورش اور نشو و نما میں بھی موثر ہے، کیونکہ جو شخص ہمیشہ قیامت کو یاد رکھتا ہے وہ اپنے تمام اعمال اور رویوں کا خیال رکھتا ہے اور اپنی تمام سعی و کوشش کو پروردگار عالم کی رضا اور خشنودی کے حصول میں لگا دیتا ہے۔[3]

سماجی انصاف کی ضمانت

موجودہ دور میں عدلیہ اور حکومتیں، ایک حد تک انسانی معاشروں میں عارضی نظم اور امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، لیکن یہ صرف ظاہری فساد اور ظاہری بدعنوانی کو قابو کرنے تک محدود ہیں۔ جبکہ پوشیدہ جرائم کو قابو پانے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے، اسی طرح اگر قانون کو نافذ کرنے والے ہی اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنا چاہیں تو انہیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

ایسی صورتوں میں انسانی حکومتیں، سماجی انصاف کو قائم کرنے میں ناکامی کا سامنا کرتی ہیں؛ لیکن ایسا معاشرہ جہاں ایمان اور خدا کا خوف تمام قوانین کی بنیاد ہو، وہاں ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ گناہوں کے نتائج اور آخرت میں ملنے والی سزائیں ہی قوانین پر عمل درآمد کی بہترین ضمانت ہوں گی۔[4]

زندگی میں سرگرمی اور کوشش

موت اور قیامت کے دن کا خیال اور آخرت کا تصور، انسان کی زندگی کو تلخ کام نہیں بناتا اور نہ ہی اسے زندگی کے امور میں سرگرم رہنے اور کوشش سے روکتا ہے۔ کیونکہ انسان کا زندگی میں مصروف رہنے کا سبب اس کی ضرورت کا احساس ہے، اور یہ ضرورت کا احساس موت اور قیامت کو یاد رکھنے سے ختم نہیں ہوتا۔ البتہ آخرت اور قیامت کی یاد انسان کو نفسانی خواہشات میں غرق ہونے سے روکتی ہے اور اسے ایسے راستے پر لے جاتی ہے جہاں اسے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ جو بھی اچھا عمل انجام دے گا اس کی جزا دی جائے گی، اسی لیے وہ اپنی کوششوں کا رخ اس راستے میں لگا دے گا.[5]


حوالہ جات

  1. طباطبایی، سید محمد حسین، مجموعه مقالات، ج۲، ص۱۳۰؛ مصباح یزدی، محمد تقی، پند جاوید، ص۲۸۵.
  2. طباطبایی، سید محمد حسین، مجموعه مقالات، ج۲، ص۱۳۲.
  3. طباطبایی، سید محمد حسین، مجموعه مقالات، ج۲، ص۱۳۲–۱۳۴؛ مصباح یزدی، محمد تقی، پند جاوید، ص۲۸۵–۲۸۹؛ سبحانی، جعفر، معاد انسان و جهان، ص۱۷؛ جوادی آملی، عبدالله، معاد در قرآن تفسیر موضوعی، ج۴، ص۲۲ و ۲۴ و ۲۹–۳۰ و ۳۴.
  4. سبحانی، جعفر، معاد انسان و جهان، ص۱۹.
  5. طباطبایی، سید محمد حسین، مجموعه مقالات، ج۲، ص۱۳۲.

رده:کارکرد اعتقاد به معاد رده:تاثیر اعتقاد به معاد