انفاق قرآن کریم کی روشنی میں

سؤال

قرآن کریم کی نظر میں انفاق کی اہمیت، عظمت، مقام و منزلت اور اس کے اثرات کیا ہیں؟

انفاق، دین کے اہم ترین اور مرکزی اجزاء میں سے ایک ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ہوا ہے اور اس کے بارے میں ہمیں کافی سفارش بھی کی گئی ہے نیز اس کے لیے خداوند متعال کی طرف سے عظیم اجر و پاداش معین کیا گیا ہے۔

طہارت، پاک و پاکیزگی، تزکیہ، نیکی، روحانی و معنوی مقامات اور سماج و معاشرے سے فقر کے خاتمے کو انفاق کے آثار میں شمار کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے اعتبار سے انفاق کرنے والے مؤمنین، پرہیزگار اور نیک کام انجام دینے والے ہیں۔ انفاق کو غیب پر ایمان، صبر، نیکی، اقامہ نماز جیسے اوصاف کے ساتھ بیان کرکے اسے ایک مسلمان کی بنیادی خصوصیتوں میں شمار کیا گیا ہے جنہیں پروردگار عالم نے بہشت کا وعدہ دیا ہے۔

قرآن کریم کے اعتبار سے فقراء، محرومین، یتیم، بے سہارا اور محتاج وغیرہ جیسے طبقے کے لوگ انفاق لینے کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔

انفاق کی اہمیت اور فضیلت

خداوند متعال نے جو کچھ بھی انسان کو روزی کی شکل میں عنایت کیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں عطا کردینے کو انفاق کہا جاتا ہے۔[1]

انفاق ایک اہم ترین اخلاقی پہلو اور فضیلت ترین امور میں سے شمار کیا جاتا ہے جس کی تاکید قرآن کریم میں متعدد مقامات پر کی گئی ہے۔ خداوند متعال نے انفاق کرنے والوں کو اجر عظیم، اعلیٰ درجات اور بہشت جیسے انعامات سے نوازا ہے۔[2] جس مال میں سے انفاق کیا جاتا ہے وہ کئی برابر ہوجاتا ہے۔[3] انفاق کرنے والوں کو نہ ہی کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ حزن و ملال میں مبتلا ہوتے ہیں۔[4]

قرآن کریم میں سینکڑوں آیتیں محروموں کی مدد کے سلسلے میں زکات، خمس، صدقہ، انفاق، قرض الحسنہ، اطعام، ایثار وغیرہ وغیرہ کی شکل میں بیان ہوئی ہیں۔ قرآن کریم نے انفاق کی نوعیت، اس کی مقدار، انفاق کرنے والے کے شرائط اور جن کی طرف انفاق کیا جاتا ہے سب کے سلسلے میں رہنمائی اور ہدایات موجود ہیں ۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر انفاق کا حکم دیا ہے۔[5] اس کی اہمیت اتنی ہے کہ پروردگار عالم ایک آیت میں تو عتاب آمیز لہجہ میں ارشاد فرماتا ہے: «وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ»[6] یعنی جب زمین و آسمان سب کچھ اللہ ہی کا ہے تو پھر تم اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں انفاق کیوں نہیں کرتے ہو؟![7]

انفاق میں عبادی اور اجتماعی اعتبار سے دو جہتیں پائی جاتی ہیں: پہلی جہت یہ ہے کہ انسان کو روحانی لحاظ سے ارفع و اعلیٰ مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے۔ اور دوسری جہت یہ ہے کہ یہ سماج و معاشرے کی اقتصادی اور اجتماعی حالت کو بہتر بنادیتا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں متقین اور نیکو کاروں کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے اور انہیں انفاق کی سفارش اور تاکید کی گئی ہے۔ دین اسلام میں اہم ترین اور عظیم ترین چیزوں میں سے ایک چیز جسے اسلام نے دو اہم بنیادیں «حقوق اللہ» اور «حقوق الناس» میں سے ایک کے زیر سایہ خاص توجہ کا حامل بنایا اور لوگوں کو اس کی ادائیگی کی طرف ترغیب بھی دلائی وہ انفاق ہے۔[8] پروردگار عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ: جو کچھ بھی تم انفاق کروگے خداوند متعال اس کا بدلہ عنایت فرمائے گا۔[9] خداوند متعال نے ایک آیت میں انفاق کو ایک ایسی بیج سے تشبیہ دی ہے جو سات سو دانہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔[10]

مفسرین نے آیات انفاق کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ جو کچھ بھی خداوند متعال کی راہ میں انفاق کیا جائے وہ منافع سے بھر پور ایک تجارت ہے، کیوں کہ اس کے بدلہ کی ادائیگی کی ذمہ داری خود پروردگار عالم نے اپنے ہی ذمہ لے رکھی ہے۔[11]

تزکیہ

تزکیہ اور پاک و پاکیزہ ہونا انفاق کے اہم آثار میں سے ایک ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: «الَّذِی یُؤْتِی مَالَهُ یَتَزَکَّیٰ»[12] یعنی وہ لوگ جو (اللہ کی راہ میں) اپنے مال دیتے ہیں تاکہ پاک و پاکیزہ ہوجائیں۔ مفسرین نے تزکیہ کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ «یتزکی» کی تعبیر حقیقت میں قصد قربت اور خلوص نیت کی طرف اشارہ گر ہے چاہے یہ جملہ روحانی و معنوی درجات کے حصول کے معنی میں ہو یا اموال کی طہارت و پاکیزگی کے حصول کے معنی میں ہو، کیوں کہ «تزکیہ» کا مطلب «نمو دینا» اور «پاک کرنا» دونوں استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: «خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ»[13] پیغمبر آپ ان کے اموال میں سے زکات لے لیجئے تاکہ اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک و پاکیزہ بنائیں ان کا تزکیہ کریں (ان کی پرورش کریں) اور انہیں دعائیں دیجئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین قلب کا باعث ہوگی۔

قرآن مجید کے مطابق انفاق سیّأت (گنایوں) کو مٹانے کا باعث بنتا ہے۔[14] انسان نیکی کے مرحلہ تک نہیں پہنچ سکتا مگریہ کہ جو کچھ بھی وہ دوست رکھتا ہے اس میں سے خداوند متعال کی راہ میں انفاق کرے۔[15] انفاق کے ذریعہ انسان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انفاق، قلب اور روح کے درمیان پائے جانے والے رابطے کی گرہوں کو کھول دیتا ہے۔[16]

انفاق کی خصوصیت یہ ہے کہ انسان کو انسان بناتا ہے، انسان سازی کرتا ہے۔ شہید مرتضیٰ مطہری اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ جب انسان کے پاس کوئی چیز ہو اور اسے اپنے سے جدا کرے (یعنی جو مال اس کے پاس ہے اسے اللہ کی راہ میں عطا کردے) تو وہ رحمانیت پروردگار کا مظہر بن جاتا ہے اور یہ چیز انسان سازی (یعنی انسان کو انسان بنانے ) میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ مفسر قرآن صاحب مجمع البیان بیان کرتے ہیں:

«کہ انفاق کرنے والا کوشش کرتا ہے کہ وہ خداوند عالم کے نزدیک پاک و پاکیزہ رہے اور وہ اپنے اس انفاق میں خودنمائی اور شہرت کا خواہاں نہیں ہوتا.»۔[17]

غربت کا خاتمہ

قرآن مجید کے وسیع موضوعات میں سے ایک وسیع موضوع انفاق کے ذریعہ معاشی ذمہ داریوں کے حل سے متعلق ہے۔ جسے قرآن مجید میں مختلف تعبیروں کے ساتھ تقریبا ۸۰؍مرتبہ سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو خداوند متعال کی عنایت کردہ چیزوں میں سے دوسروں کو عطا کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے.[18]

دین اسلام میں انفاق کے اہداف و مقاصد میں سے ایک اہم مقصد سماج و معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہے۔ دینی علماء کا کہنا ہے کہ ثقافتِ انفاق سے پتہ چلتا ہے کہ ہر فرد سماج و معاشرے میں دوسرے انسانوں کی فکر، ان کی معیشت اور ان کی زندگی کا خیال رکھتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید نے تاکید کی ہے اگر ویسے ہی ثقافتِ انفاق معاشرے میں رائج ہوجائے تو غربت کا مسئلہ جو بہت پیچیدہ، بنیادی اور اہم مسئلہ ہے، اچھا خاصہ اسی ثقافت کے ذریعہ حل ہوجائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ پورے طور پر حل ہوجائے اور پھر غربےت کا بالکل خاتمہ ہوجائے۔ مفسّرین بیان کرتے ہیں کہ اسلام کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ سماجی بے عدالتی کی وجہ سے غریبوں اور امیروں کے درمیان جو غیرعادلانہ طبقات و درجات پائے جاتے ہیں اسے ختم کرنا ہے۔ دین مبین اسلام اس مقصد کے حصول کے لیے ایک اعلیٰ پیمانہ پر منصوبہ بندی رکھتا ہے جن میں سے اہم ترین منصوبہ انفاق اور دوسروں کو مالی مدد پہنچانا ہے۔[19]

دوسروں کی مدد کرنا اور سماج و معاشرہ سے غربت کو ختم کرنا، اعمال صالح کے مصادیق میں سے ایک ہے جس کے اوپر قرآن مجید میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جو حضرات سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اس میں سے خدا کی راہ میں کچھ بھی انفاق نہیں کرتے ہیں تو خداوند متعال نے ایسے لوگوں کو دردناک عذاب میں مبتلا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔[20] مال و دولت اکٹھا کرنے اور انفاق نہ کرنے کو اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے نیز مال و دولت اکٹھا کرنے والوں کی بڑی مذمت کی ہے.[21]

انفاق کرنے والے متقین کے اوصاف

«(متقین) وہ لوگ ہیں جو راحت اور سختی ہر حال میں انفاق کرتے ہیں اور غصّہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔».[22]

انفاق کرنے والے قرآن مجید کی نظر میں متقین، محسنین[23] (احسان، نیک کام کرنے والے)، مؤمنین[24]، مفلحین[25] (فلاح و کامیاب لوگ) وغیرہ ہیں۔ جو افراد غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور اقامۂ نماز کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو انفاق کرتے ہیں.[26]

قرآن کریم نے نیکیوں کے اقسام گناتے ہوئے انفاق کو بھی نیکیوں میں شمار کیا ہے۔[27] سورہ تغابن کی آیت۱۶ میں انہیں «مفلحون» سے یاد کیا ہے اور جو لوگ جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ان کے سلسلے میں «فائزون» کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔[28] سورہ آل عمران میں آیا ہے کہ جو لوگ خواہ وہ راحت و آسائش کی زندگی بسر کرہے ہوں یا سختی کی زندگی کے لمحات گزار رہے ہوں ہر حال میں انفاق کرتے ہیں تو یقینا خدا انہیں دوست رکھتا ہے۔[29] متقین کی ایک اور صفت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مال میں سائلوں اور محروموں کے لیے ایک معین حق اور حصہ قرار دے رکھا ہے۔[30] اور فروتنی کے اوصاف میں کہا جاتا ہے کہ وہ صبور (بہت زیادہ صبر کرنے والے) ہیں، اقامۂ نماز کرنے والے ہیں، اور جو کچھ انہیں روزی کی شکل میں دی جاتی ہے اس میں سے وہ انفاق کرتے ہیں۔[31]

قرآن کریم میں مؤمنوں کی خصوصیتوں میں ملتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خداوند متعال اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی جان و مال سے خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں یہی لوگ «صادقون» (سچے لوگ) ہیں۔[32] نیز قرآن کریم نے«انفاق» کو ارکان ایمان میں شمار کیا ہے۔ انفاق اور مالی امداد کی اہمیت اور اس کی عظمت اس قدر ہے کہ اسے اسلام کے بنیادی مسائل میں شمار کیا گیا ہے۔[33]

مستحقین انفاق

قرآن کریم نے نیازمندوں، فقیروں، یتیموں، راستے میں بے چارہ ہوجانے والوں اور محرومین وغیرہ کو اخذ انفاق کا مستحق قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: «صدقات و خیرات بس فقراء، مساکین، عاملین زکات (زکات کے حصول، تقسیم، اور دیگر انتظامات میں مدد کرنے والے افراد)، جن کی تالیف قلب کی جاتی ہے، غلاموں کی گردن کی آزادی میں اور قرضداروں کے لئے اور راہ خدا میں غربت زدہ مسافروں کے لئے ہیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے»۔[34]

قرآن کریم نے بعض انفاقات کو جیسے زکات، خمس، مالی کفارے اور اقسام فدیہ کو واجب کیا ہے اور کچھ صدقات اور امور جیسے وقف، کسی کے گھر کا انتظام کرنا، وصیتیں، بخشش و عطایا وغیرہ کو مستحب قرار دیا ہے۔[35]

انفاق کرنے کا طریقہ

پروردگار عالم ہر طرح کے انفاق کو چاہے وہ آشکارا اور ظاہر کرکے انجام دیے گئے ہوں یا مخفیانہ طور پر انجام دیا گیا ہو اسے نیک شمار کرتا ہے اور اس کے لیے اجر و پاداش عطا کرتا ہے۔[36] لیکن پوشیدہ انفاق کو بہتر جانتا ہے۔[37] مفسرین قرآن مجید معتقد ہیں کہ آشکار اور پوشیدہ دونوں طرح کے انفاق کے بہت زیادہ فوائد ہیں۔ آشکار انفاق، لوگوں کو خود اسی نیک کام کی انجام دہی کی طرف دعوت دیتا اور ابھارتا ہے اور سماج و معاشرے کو اس کی ترغیب دلاتا ہے۔ لیکن پوشیدہ اور مخفیانہ طور کا انفاق، ریا، مِنَّت، آزار، تحقیر، ذلت و رسوائی وغیرہ سے دور ہوتا ہے نیز اس کے روحانی و معنوی آثار بہت زیادہ اور عظیم حیثیت کے حامل ہیں۔[38]

قرآنی ثقافت میں انسان کے روحانی و معنوی شخصیت کے ارتقاء کا اصلی مقصد انفاق شمار کیا گیا ہے۔ وہ چیز جو اس عمل کو معنی دار اور پُر اہمیت بناتی ہے وہ نیت ہے اور جو بھی انفاق ریاکاری وغیرہ کی بنیاد پر ہو اسے بے اثر اور بے ارزش جانا گیا ہے۔[39] جب تک انفاق، خداوند متعال کی راہ میں ہو نہ کہ لوگوں پر فوقیت اور برتری طلبی کے لیے تو پھر یہ ایک صالح عمل کہلائے گا ورنہ نہیں۔[40]

انفاق کا اصلی مقصد خداوند متعال کی رضا کا حصول اور اس کی خوشنودی ہونی چاہیے۔[41] نہ کہ جاہ طلبی، شہرت اور خواہشات نفسانی کی خاطر۔[42] اگر انفاق مِنّت و سماجت کے ہمراہ ہو تو اس کا یہ عمل اس کے تمام اجر و پاداش کو نابود کردے گا۔[43] اگر انفاق مِنّت و سماجت اور آزار وغیرہ سے خالی ہو تو اس کا اجر خداوند متعال کے نزدیک محفوظ ہے۔[44]

حوالہ جات

  1. معینی، محسن، «انفاق»، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، به کوشش بهاالدین خرمشاهی، تهران، دوستان، ناهید، ۱۳۸۱ش، ج۱، ص۳۱۳.
  2. سوره حدید، آیه۱۱. سوره انفال، آیه۶۰. سوره توبه، آیه۲۱.
  3. سوره بقره، آیه ۲۶۱. سوره قصص، آیه ۵۴.
  4. سوره بقره، آیه ۲۷۴.
  5. قرائتی، محسن، تفسیر نور، تهران، مرکز فرهنگی درس‌هایی از قرآن‏، ۱۳۸۸ش، ج۹، ص۴۶۱.
  6. سوره بقره، آیه ۱۹۵.
  7. سوره حدید، آیه ۱۰.
  8. طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمه: محمدباقر موسوی همدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۵۸۷.
  9. سوره بقره، آیه ۲۷۲. سوره فاطر، آیه ۲۹. سوره سبأ، آیه ۳۹.
  10. سوره بقره، آیه ۲۶۱. سبحانی، جعفر، «مثل‌های زیبای قرآن» مجله درس‌هایی از مکتب اسلام، شماره ۹ (۸۰).
  11. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۷۱ش، ج۱۸، ص۱۱۷.
  12. لیل:۱۸
  13. سوره توبه: 103
  14. سوره بقره، آیه ۲۷۱.
  15. سوره آل عمران، آیه۹۲
  16. مصباح یزدی، محمد تقی، رستگاران، قم، مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی (ره)، بی‌تا، ج۱، ص۵۹.
  17. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ترجمه: احمد بهشتی و دیگران، تهران، فراهانی، بی‌تا‏، ج۲۷، ص۱۳۱.
  18. منتظری، حسینعلی، اسلام دین فطرت، تهران، سایه، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۵۷۴.
  19. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۳۱۶.
  20. سوره توبه، آیه ۳۴.
  21. منتظری، حسینعلی، اسلام دین فطرت، تهران، سایه، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۵۷۶
  22. آیه ۱۳۴ سوره آل‌عمران
  23. سوره بقره، آیه۱۹۵.
  24. سوره بقره، آیه۲۵۴.
  25. سوره تغابن، آیه۱۶.
  26. سوره بقره، آیه۳.
  27. سوره بقره، آیه ۱۷۷.
  28. سوره توبه، آیه ۲۰.
  29. سوره آل عمران، آیه ۱۳۴.
  30. سوره ذاریات، آیه ۱۹.
  31. سوره حج، آیه ۳۴ و ۳۵.
  32. سوره حجرات، آیه ۱۵.
  33. «صدقه و انفاق در آیات و روایات»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر استاد حسین انصاریان. تاریخ بازدید: ۱۲ مهر ۱۴۰۲ش.
  34. سوره توبه:۶۰
  35. طباطبایی، محسن، تفسیر المیزان، ترجمه محمدباقر موسوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۵۸۷.
  36. سوره بقره، آیه ۲۸۴.
  37. سوره بقره، آیه ۲۷۱.
  38. طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمه: محمدباقر موسوی همدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۶۱۰.
  39. جمعی از نویسندگان، «انفاق»، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج ۱۰، ذیل مدخل.
  40. مدرسی، محمد تقی، احکام عبادات، قم، انتشارات محبان الحسین(ع)، ۱۳۸۱ش، ج۱، ص۵۲۳.
  41. سوره بقره، آیه ۲۶۵. محسنی، محمد آصف، افق اعلی، کابل، رسالات، ۱۳۹۶ش، ج۳، ص۱۹۶.
  42. مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، تهران، صدرا، ۱۳۹۰ش، ج۲۲، ص۱۸۷.
  43. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۳۱۸.
  44. سوره بقره، آیه ۲۶۲.