شکر نعمت اور کفران نعمت

سؤال

شکر نعمت اور کفران نعمت کیا ہے؟

قرآن مجید اور ائمہ طاہرین کی روایتوں میں شکر نعمت کی بہت اہمیت بیان ہوئی ہے اور یہ شکر چاہے قلبی اعتبار سے کیا جائے یا زبانی لحاظ سے یا عملی طور پر سبھی کو شامل ہے۔ قلبی شکر: دل سے شکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان قلبی طور پر اعتراف کرتا ہے کہ تمام نعمتیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ شکر زبانی: زبان سے شکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کی زبان سے حمد ستائش کرتا ہے جیسے«الحمد للہ»کہتا ہے، «شکرا للہ» کہتا ہے۔ شکر عملی: عملی طور پر شکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو انسان پروردگار عالم کی خوشنودی اور اسی کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ مفسریں قرآن کریم کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ کا حقیقی شکر اس کی نعمتوں میں اضافہ اور انسان کی روحانی رشد و تکامل کا سبب بنتا ہے، نیز خداوند عالم نے انسانی تربیت اور درجہ کمال تک پہنچنے کے لیے اسی چیز کی سفارش اور تاکید کی ہے۔

اسی کے مقابلہ میں «کفران نعمت» ہے اس سے مراد ناشکری اور پروردگار عالم کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا غلط استعمال ہے جو منفی اثرات اور منفی نتائج کا حامل ہے۔ قرآن کریم نے سورہ نحل اور سورہ سبا میں کفران نعمت کے نتائج کو بیان کیا ہے اور کافروں کے لیے نعمتوں کے زوال کی پیشن گوئی بھی کی ہے۔ اسی طریقے سے روایتیں بھی کفران نعمت کو برکتوں کے سلب اور نعمتوں کے عدم استحکام کا سبب بتاتی ہیں اور اسے کفر کی ایک قسم شمار کرتی ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی کفران نعمت کی مذمت کی ہے ساتھ ہی ساتھ نعمتوں کے استحکام کے لیے شکرگزاری کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔

شکر نعمت

شکر نعمت قرآن کریم کی روشنی میں

پروردگار منعم (نعمت عطا کرنے والے پروردگار) کے سلسلے میں قرآن کریم میں بہت سی آیتیں موجود ہیں اور اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے بندوں کو نعمتوں کی شکر گزاری پر کافی زور دیا ہے جس کے فوائد خود بندوں تک ہی پہنچتے ہیں۔[1]

مفسرین قرآن کہتے ہیں کہ شکر نعمت کے چند مرحلے ہیں[2]:

  1. شکر قلبی، انسان دل کی گہرائیوں سے اس بات کا اعتراف کرے کہ تمام نعمتیں خداوند متعال کی طرف سے ہیں۔
  2. شکر زبانی، انسان کا زبان کے ذریعہ اللہ کا شکر ادا کرنا جیسے «الْحَمْدُلِلَّهِ» کہنا۔
  3. شکر عملی، انسان کا عبادتوں کے انجام دینے اور اپنی زندگی نیز تمام اموال وغیرہ کو پروردگارعالم کی رضا، اس کی خوشنودی اور لوگوں کی خدمت میں صرف کرنا۔

جب بھی لوگ خداوند متعال کی نعمتوں کو اسی حقیقی مقاصد کے تحت استعمال کرتے ہیں جن کے لیے وہ نعمتیں عطا کی گئی ہیں تو ان کا یہ کام ثابت کرتا ہے کہ یہ لوگ خداوند متعال کی نعمتوں سے مزید فیضیاب ہونے کے لائق اور اس کے فضل و کرم سے بہرہ ور ہونے کی زیادہ شائستگی رکھتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ شکر نعمت نہ یہ کہ صرف نعمتوں کے اضافہ کا سبب ہوتا ہے بلکہ خود انسان کی تربیت اور اس کے رشد و کمال میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔[3] حالانکہ خداوند متعال جو نعمتیں انسان کو عطا کرتا ہے اس کے مقابلہ میں وہ انسان کے شکر کا محتاج نہیں ہے[4]، اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اگر شکر کرنے کا حکم دیا ہے تو یہ بندوں ہی کے لیے ایک اور نعمت ہے اور یہ ایک اعلیٰ تربیتی مکتب ہے۔[5] نعمت عطا کرنے اور احسان کرنے والے کا زبان اور عمل کے ذریعہ شکر ادا کرنے کو ایک قاعدۂ عقلائی کہا گیا ہے کہ نعمت پانے والا دل کی گہرائیوں سے نعمت دینے والے سے محبت کرتا ہے اور عمل کے ذریعہ اس کا احترام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔[6] جیسا کہ روایتوں میں ملتا ہے کہ جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کیا۔[7]

شکر نعمت روایت کی روشنی میں

شکر نعمت کے سلسلے میں بہت سی رویتیں وارد ہوئی ہیں، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

  • مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: «جب آپ کو خداوند متعال کی طرف سے نعمتوں کا حصول ہو تو کوشش کریں کہ شکرگزاری کے ذریعہ بقیہ نعمتوں کو بھی اپنی طرف جلب کرلیں نہ کہ تھوڑی شکرگزاری کے ذریعہ اسے اپنے سے دور کردیں.»۔
  • امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «شکر نعمت، گناہوں سے دوری کا سبب ہے.»۔[8]
  • امام جعفر صادق علیہ السلام ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: «شکر اسے کہتے ہیں کہ انسان حاصل کردہ نعمت کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا عطیہ جانے (نہ کہ اپنی چالاکی و ہوشیاری، علم و عقل، اپنی کوشش یا دوسروں کی کوشش کا ثمرہ جانے)، اور پروردگارعالم نے جو کچھ دیا ہے اس پر راضی رہے، اور خداوند متعال کی نعمتوں کو گناہ کرنے کا وسیلہ نہ بنائے، حقیقی شکر یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کو خود اسی کے راستے میں خرچ کرے.»۔[9]
  • امام جعفر صادق علیہ السلام ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: «جب خداوند متعال کسی بندہ کو نعمت سے نوازتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس کا تہہ دل سے اعتراف کرے اور اپنی زبان سے اس کی حمد و ثنا کرے۔ جب وہ ایسا کرتا ہے تو اس کی بات ابھی تمام بھی نہیں ہوپاتی ہے کہ خداوند متعال مزید نعمتوں سے نوازنے کا حکم دیدیتا ہے.»۔[10]
  • امام جعفر صادق علیہ السلام ایک اور موقع ارشاد فرماتے ہیں: «جس شخص نے بھی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا اعتراف دل سے کیا تو قبل اس کے کہ وہ زبان سے شکرگزاری کا کوئی جملہ ادا کرے، وہ خداوند متعال کی مزید نعمتوں کا مستحق قرار پاجاتا ہے.»۔[11]

کفران نعمت

کفران نعمت کا مطلب ناشکری اور خداوند متعال کی نعمتوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ اور یہ وہ چیز ہے جس کا شمار گناہان کبیرہ میں ہوتا ہے۔ اور یہ کفران نعمت، شکر نعمت کے مقابلہ میں قرار پایا ہے، نعمتوں کے شکر کا مطلب خداوند عالم کی نعمتوں کو ظاہر کرنا اور اس کی قدردانی کرنا ہے۔[12] کفران نعمت انسان کی ناشکری انسان کے رویّوں کے ذریعہ پتہ چلتی ہے جیسے نعمتوں کا نامناسب استعمال، دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کرنا، بے توجہی کرنا، نعمتوں کی قدر و منزلت کو چھپانے وغیرہ سے ناشکری ظاہر ہوتی ہے۔[13] لغوی اعتبار سے لفظ «کفران» عام طور پر نعمتوں سے انکار اور اسے نظر انداز کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[14]

کفران نعمت کا معنی جسم میں عطا کی گئی بدنی نعمتوں، روحانی و معنوی قوتوں، علم و دانش، مال و ثروت، سماجی و معاشرتی حیثیت و عہدے، وغیرہ کا غلط استعمال کرنا ہے۔ جیسے اپنی طاقت کو کوئی منکرات و فحشاگری (خلاف عفت و عصمت کام) اور مظلوموں پر ظلم و ستم میں صرف کرے اور مال و ثروت کو مستحقیقن میں خرچ کرنے کے بجائے جوا، قماربازی اور برائیوں کو عام کرنے نیز فساد پھیلانے پر خرچ کرے۔[15]

کفران نعمت قرآن مجید کی روشنی میں

قرآن کریم میں کفران نعمت کی سخت مذمت ہوئی ہے اور یہ شکر کے مقابلہ میں قرار پایا ہے۔[16] مفسرین قرآن کریم بیان کرتے ہیں کہ اگر خداوند متعال کی نعمتوں کو غلط اور ناحق راستے میں استعمال کیا جائے تو وہ کفران نعمت اور کفر کا سبب بنتا ہے۔[17] بعض دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ کفران نعمت کی سزا صرف اس نعمت کا چھن جانا نہیں ہے، بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نعمت سلب نہیں ہوتی، مگر وہ نقمت و عذاب میں تبدیل ہوکر دھیرے دھیرے انسان کو زوال پذیر کردیتا ہے۔[18]

کفران نعمت زوال اور عذاب میں تبدیل ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔ جیسا کہ خداوند متعال نے قرآن کریم میں سورہ نحل کی آیت ۱۱۲ میں کفران نعمت کی وجہ سے بھوک اور خوف کوعذاب کی صورت میں بیان کیا ہے۔ اسی طریقہ سے سورہ سبأ کی آیات ۱۷۔۱۵ میں قوم سبا کے کفران نعمت کا نتیجہ آباد سرزمین سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور بلا و مصیبت نیز سختیوں جیسے عذاب میں مبتلا ہونے کو بیان ہے۔[19]

کفران نعمت روایات کی روشنی میں

احادیثی کتب میں بھی ائمہ طاہرین کے کلام میں کفران نعمت کی شدید مذمت ہوئی ہے اور اسے قرآن کریم[20] میں کفر کی ایک قسم نیز جہالت کے لشکریوں میں شمار کیا ہے۔[21] امام سجاد علیہ السلام اس گناہ کو خداوند عالم کی نعمتوں میں تبدیلی کا سبب سمجھتے ہیں، اور امام جعفر صادق علیہ السلام بھی کفران نعمت کو عطا کردہ نعمتوں کی ناپائیداری و عدم استحکام کا باعث شمار کرتے ہیں۔[22]

آیه «لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذابِی لَشَدِید»

سورہ ابراہیم کی آیت۷ کو شکر نعمت اور کفران نعمت کے سلسلے میں قرآن کریم کی سب سے واضح اور اہم آیت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔[23] اس آیت میں خداوند کریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم ہمارا شکریہ ادا کرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو ہمارا عذاب بھی بہت سخت ہے۔[24] اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انسان کا خداوند متعال کی بارگاہ میں تینوں اعتبار سے شکر (یعنی شکر قلبی، شکر زبانی اور شکر عملی) نعمتوں کی اضافے کا سبب بنے گا اور اگر انسان کفران نعمت میں مبتلا ہوا تو سخت عذاب الٰہی کا شکار ہوگا۔[25]

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ اس آیت سے مراد شکرگزاروں کے سلسلہ سے جو نعمتوں میں اضافہ کی بات کی گئی ہے صرف یہی مراد نہیں ہے کہ انہیں مادی نعمتوں سے نوازا جائے گا بلکہ خود شکرگزاری خاص طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف توجہ اور دلوں میں اس کے لیے نئے عشق و محبت کا پیدا ہوجانا خود یہ ایک بہت بڑی روحانی و معنوی نعمت ہے جو انسانی نفوس کی تربیت، اور انہیں خداوند عالم کے احکام کی اطاعت و پیروی کی طرف دعوت دینے میں انتہائی مؤثر ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ شکر نعمت حقیقتاً خداوند متعال کی زیادہ سے زیادہ معرفت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی وجہ سے عقائدی بحث میں علم کلام کے علماء خداوند متعال کی وجوب معرفت کو «وجوب شکر منعم» کے ذریعہ وارد بحث ہو کر اس وجوب کو ثابت کرتے ہیں۔[26]

حوالہ جات

  1. محسنی، شیخ محمد آصف، قوانین زندگانی انسان در قرآن، کابل، حوزه علمیه خاتم النبیین(ص)، ۱۳۹۲ش، ص۹۴ و ۹۵.
  2. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۳۸۹.
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۰، ص۲۷۹.
  4. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۳۹۰.
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۰، ص۲۷۸.
  6. محسنی، شیخ محمد آصف، قوانین زندگانی انسان در قرآن، کابل، حوزه علمیه خاتم النبیین(ص)، ۱۳۹۲ش، ص۹۴.
  7. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۳۸۹.
  8. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۳۸۹.
  9. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۳۸۹.
  10. قرشی بنابی، علی‌اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تهران، بنیاد بعثت، ۱۳۷۵ش، ج۵، ص۲۷۹.
  11. قرشی بنابی، تفسیر احسن الحدیث، ۱۳۷۵ش، ج۵، ص۲۷۹.
  12. راغب اصفهانی، حسین بن محمد (۱۴۱۲). مفردات ألفاظ القرآن (به عربی). سوریه: دار العلم- الدار الشامیة. ص. ذیل واژه شکر.
  13. دهخدا، علی‌اکبر (۱۳۷۷). لغت‌نامه دهخدا (به عربی). تهران: دانشگاه تهران. ص. ذیل واژه کفران.
  14. راغب اصفهانی، حسین بن محمد (۱۴۱۲). مفردات ألفاظ القرآن (به عربی). سوریه: دار العلم- الدار الشامیة. ص. ذیل واژه شکر.
  15. محسنی، شیخ محمد آصف، قوانین زندگانی انسان در قرآن، کابل، حوزه علمیه خاتم النبیین(ص)، ۱۳۹۲ش، ص۹۵.
  16. مجلسی، محمدباقر (۱۴۰۳). بحارالانوار. ج. ۶۹. بیروت: دار إحیاء التراث العربی. ص. ۳۳۹.
  17. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۳۹۰.
  18. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۳۹۰.
  19. مکارم شیرازی، ناصر (۱۳۷۱). تفسیر نمونه. ج. ۱۸. تهران: دارالکتب الاسلامیه. ص. ۵۸-۶۰.
  20. کلینی، محمد بن یعقوب (۱۴۰۷). الکافی. ج. ۲. تهران: دارالکتب الاسلامیه. ص. ۳۸۹.
  21. کلینی، محمد بن یعقوب (۱۴۰۷). الکافی. ج. ۱. تهران: دارالکتب الاسلامیه. ص. ۲۱.
  22. کلینی، محمد بن یعقوب (۱۴۰۷). الکافی. ج. ۲. تهران: دارالکتب الاسلامیه. ص. ۹۴؛ صدوق، محمد بن علی (۱۴۰۳). معانی الأخبار. ج. ۱. قم: انتشارات اسلامی. ص. ۲۷۰.
  23. قرائتی، محسن، تفسیر نور، تهران، مرکز فرهنگی درس‌هایی از قرآن‏، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۳۸۹.
  24. محسنی، شیخ محمد آصف، قوانین زندگانی انسان در قرآن، کابل، حوزه علمیه خاتم النبیین(ص)، ۱۳۹۲ش، ص۹۵.
  25. محسنی، شیخ محمد آصف، قوانین زندگانی انسان در قرآن، کابل، حوزه علمیه خاتم النبیین(ص)، ۱۳۹۲ش، ص۹۵.
  26. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۷۱ش، ج۱۰، ص۲۸۲.