فطرت میں توحید اور مسئلہ اختیار

سؤال

کیا خدائی فطرت، انسان میں جبر پیدا نہیں کرتی؟

انسانی فطرت کا مطلب ہے خاص فطرت اور انسان کی خاص تخلیق۔ یہ لفظ قرآن مجید میں انسان کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔ [1] فطرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی تخلیق میں خدا جوئی، خدا شناسی اور توحید کی خصوصیات رکھی گئی ہیں۔

علماء کا نظریہ ہے کہ فطرت، آزادی کے مسئلے سے متصادم نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کی توحید پرستانہ فطرت صرف علم تک محدود ہے، یعنی وہ فطری طور پر خدا کو اس کی وحدانیت کی صفت سے جانتا ہے، اور اگر گناہ، ماحول، شیطان وغیرہ اس فطرت کے سامنے دیوار نہ کھڑی کریں تو وہ توحید پرست ہی رہے گا۔

محققین کا خیال ہے کہ فطرت کے علم سے لیکر توحید پر ایمان تک اور پھر اس پر عمل کرنے میں بڑا فرق ہے۔ علم کے بغیر ایمان ممکن نہیں، لیکن علم کے علاوہ عمل اور دل کا اقرار بھی اس میں شامل ہے۔

نیز خدا کو جاننے کی فطرت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ خدا کی شناخت رکھتا ہے اور ہمیشہ خدا کو توحید کی صفت سے جانتا ہے اور اس کی شناخت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ماحولیاتی، خاندانی، تعلیمی جیسے عوامل ادراک کو متاثر کر سکتے ہیں۔

قرآن کریم کہتا ہے کہ ہم نے فطرت، عقل و دانش اور انبیاء بھیج کر تمام لوگوں کو راہ راست کی ہدایت کی ہے۔ انسان ہی ہے جو ہدایت پر کفر کو ترجیح دیتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:

﴿إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا؛ یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔(انسان:۳)

منابع

  1. مطہری، مرتضیٰ، فطرت، ناشر انجمن اسلامی دانشجویان، پہلا ایڈیشن، 1361، صفحہ 13-14۔