خدا کا لامحدود ہونا
خدا کا لامحدود ہونا کیسے ثابت ہو؟
خدا کے لا محدود ہونے کے جواب میں، اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر امام علیؑ کے کلام اور بعض فلسفیوں کے کلام میں موجود ہے۔ امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں چونکہ خدا قابل اشارہ نہیں ہے، لہذا محدود نہیں ہے، اور جب محدود نہیں ہے تو لایق شمارش بھی نہیں ہے۔ جس سے یہ نتیجہ نکلا کہ وہ ایک اور لا شریک ہے۔ خدا کی لامحدود ہونے کو ثابت کرنے کے لیے بعض فلاسفہ نے تصورات کی تعریف اور مفاہیم کا حوالہ دیا ہے، جیسے کہ "مطلق وجود"، "اللّٰہ" اور "واجب الوجود" خدا اور ان تصورات کو بیان کرتے ہوئے ان کی وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خدا لامحدود ہے۔ ایک اور وجہ جو انہوں نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ محدودیت ماہیت کا لازمہ ہے اورماہیت ذات الہی میں قابل تصور نہیں ہے۔
خدا کے لا محدود ہونے پر امام علی (ع) کا کلام
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں امیر المومنین (ع) خدا کے لامحدود ہونے کو اس طرح ثابت کرتے ہیں: «و من اشارالیه فقد حده و من حده، فقد عده»[1]:
- یعنی جس نے خدا کی طرف اشاره کیا اس نے، اس کو محدود جانا اور جس نے اسے محدود سمجها، اس نے خدا کو عدد میں محدود اور متعدد گمان کیا۔
امام (ع) کے اس ارشاد میں واضح الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حد بندی کی نفی کی گئی ہے، کیونکہ امام فرماتے ہیں کہ چونکہ خدا تمام اشارے اور اعداد سے بالاتر ہے، اس لیے واضح ہے کہ وہ محدود نہیں ہے، اور اگر خدا محدود ہوتا تو متعدد ہوتا جب کہ خدا عدد کی طرح قابل شمارش نہیں ہے لہذا وہ وحده لا شریک ہے۔ کسی بھی چیز کی محدودیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وه کسی اور سے مشابہ اور مخالف ہو۔ لیکن خداوند عالم اپنے مثل اور مخالف سے پاک اور منزه ہے لہذا وه لا محدود ہے۔[2]
ایک اور خطبہ میں امام علی علیہ السلام نے فرمایا: «لا یشمل بحد و لا یحسب بعد و انما تحد الادوات انفسها[3]؛ خدا کی کوئی حد نہیں ہے، اور نہ ہی نفس کی پیمائش کی کوئی حد ہے» اور وہ عدد سے شمار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ابزار اور آلات صرف اپنے تک ہی محدود ہوتے ہیں۔
امام کی حدیث کا یہ حوالہ درحقیقت خدا کی طرف سے حدود کی نفی کو ظاہر کرنے کے لئے ہے، امام (ع) کے اس قول کے توسیعی تجزیے میں کہا گیا ہے حد کا مطلب منع کرنا ہے، مثال کے طور پر حدود خانہ، یعنی وہ جگہ جہاں سے تجاوز نہ کیا جائے، حدود ملک، شمال اور مشرق سے محدود ہے، اور ان امور کی طرح امام نے اپنے اس کلام میں فرمایا: خدا کی کوئی حد نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے جیسا کہ ہم نے ممکنات میں ذکر کیا ہے۔ یعنی ممکنات میں ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی صفت رکھتا ہو اور دوسروں کی صفت قبول نہ کر سکے۔ جیسے انسان، درخت، فرشتے وغیره جبکہ خدا ایسا نہیں ہے، يعنی وہ دوسروں کی صفت قبول نہیں کرتا۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا محدود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسری مخلوقات کے سامنے ایک خاص ہستی ہوگا اور صرف کچھ خاص کمالات رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، سورج کو گرمی اور روشن کرنے والی خاصیت ہے، پانی کی ایک اور خاصیت ہے، مٹی کی ایک اور خاصیت ہے۔ لیکن خدا ان صفات اور ان جیسی کسی بھی صفات تک محدود نہیں ہے، بلکہ تمام مظاہر کے کمالات اور صفات کا سرچشمہ درحقیقت اس کی ذات ہے۔ لہٰذا حضرت حق کے بارے میں ہم کوئی حد نہیں رکھ سکتے، کیونکہ اس صورت میں محدود اشیاء کی صفات و خواص کو اس کے وجود سے منسوب نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ حد تک محدود ہے، اور جو چیز معین حد تک محدود ہو، وہ اس کے وجود میں نہیں آ سکتی۔ تمام صفات کا اصل ہونا یہ چیزوں کے برعکس ہے، جبکہ خدا تمام مخلوقات اور ان کے کمالات کی اصل ہے۔ تو معلوم ہوا کہ وہ لامحدود ہے۔ اس بحث کی تفصیل ذیل کے ماخذ میں تلاش کریں۔[4]
خدا، مطلق ہستی
خدا کے لامحدود ہونے کے بارے میں فلسفیانہ نقطہ نظر کی تیسری دلیل یہ ہے کہ مطلق وجود، لامحدود ہونے کے برابر ہے، کیونکہ محدود ہونا نامکمل اور عدم وجود سے پیدا ہوتا ہے، اور اس مطلق وجود کے لیۓ عدم کا تصورنہیں ہے، اوراسی طرح عیب اور کثرت سے پاک و منزہ ہے، اس لیے وہ لامحدود ہے۔[5] اور چونکہ خدا مطلق ہے، خالص وجود ہے، اس لیے اس کا محدود ہونا ناممکن ہے، کیونکہ اگر وہ محدود ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نامکمل یا خالص وجود نہیں ہے۔ لہذا وہ مطلق و لامحدود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: "قل ہو اللہ احد"۔ کہہ دیجۓ کہ اللہ ایک ہے۔
خدا کی ذات علت العلل
خدا تمام اسباب کا سبب ہے، خدا کے لامحدود ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ محدودیت محکومیت اور معذوریت کے مساوی ہے یعنی ہر وہ وجود جو معذور اور محکوم ہے فطرتاً محدود ہے اور چونکہ خدا کسی سبب اور اسباب کا اثر نہیں ہے، کسی بھی چیز کا تابع نہیں بلکہ وہ تمام اسباب کا سبب ہے اور قادر مطلق ہے، اس لیے یہ واضح ہے کہ وہ کبھی بھی کسی حد میں محدود نہیں ہے لہذا لامحدود ہے۔[6]
خدا کی ذات واجب الوجود
خدا کے لامحدود ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ خدا واجب الوجود ہے اور وجود کی ضرورت لامحدود ہونے کے برابر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وجود کی حقیقت وحدانیت، ضرورت، تبادلے اور خالصیت کے برابر ہے، اور چونکہ خدا وجود اور محض وجود کی حقیقت ہے، اور وجود کے لیے ضروری (واجب الوجود) ہے، اس لیے وہ لامحدود ہے۔ کیونکہ اگر یہ لامحدود نہ ہو تو واجب نہیں ہوگا۔ جب کہ ہستی کا وجود ایک مطلق اور لازمی فریضہ ہے۔[7]
خدا کی ذات میں ماہیت کا نا پایا جانا
خدا کے لامحدود ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ محدودیت ہمیشہ ماہیت سے پیدا ہوتی ہے یعنی ماہیت کی اصل مخلوقات میں محدودیت کا پیدا ہونا ہے اورکیونکہ خدا ماہیت سے پاک ہے لہذا وہ ہر قسم کے تعین اور حدود سے پاک ہے اور لامحدود ہے۔[8]
حوالہ جات
- ↑ نهج البلاغه، خطبه ۱.
- ↑ جعفری، محمد تقی، شرح نهج البلاغه، تهران، نشر دفتر نشر فرهنگ اسلامی، ۱۳۵۷ ش، ج۲، ص۳۵–۶۱.
- ↑ نهج البلاغه، خطبه ۱۸۶.
- ↑ شعرانی، نقل از: حسنزاده، هزار و یک کلمه، قم، نشر دفتر تبلیغات، ۱۳۷۹ش، ج۴، ص۲۱۲.
- ↑ مطهری، مرتضی، مجموعه آثار ۶، نشر صدرا، ۱۳۷۹ ش، ص۱۰۱۷.
- ↑ مطهری، مرتضی، مجموعه آثار ۶، نشر صدرا، ۱۳۷۹ ش، ص۱۰۱۷.
- ↑ مطهری، مرتضی، مجموعه آثار ۶، نشر پیشین، ص۱۰۱۸.
- ↑ صدرالمتألهین، اسفار، بیروت، نشر دار الاحیاء، بی تا، ج۱، ص۹۶.