صلوات کے بعد وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ کا پڑھنا

ویکی پاسخ سے
  1. تغییر_مسیر الگو:پاسخ
سؤال

کیا صلوات کے بعد "وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ" کا پڑھنا آئمہ علیہم السلام سے منقول روایت کی بناپر ہے؟

صلوات کے بعد وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ کا پڑھنا معتبر اسلامی روایات میں آیا ہے۔ اور علماء انہی روایات کی بنیاد پر صلوات کے بعد اسے پڑھنے کو مستحب جانتے ہیں۔

صلوات کے بعد وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ کا ذکر روایات میں

  • امام صادق علیہ السلام نے اسحاق بن عمار کو بچھو کے شر سے بچنے کی دعا سکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ ذکر تین بار پڑھو: «اللَّهُمَّ رَبَّ أَسْلَمَ‏ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ‏ فَرَجَهُمْ؛ اے وہ اللہ جو ستارہ اسلم کا رب ہے! محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر درود بھیج، اُن کے فرج (ظہور اور نصرت) میں تعجیل فرما، اور ہمیں محفوظ رکھ۔‏»[1].
  • امام صادقؑ نے ایک دعا کے فراز میں یوں صلوات بھیجی ہے: «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ‏ فَرَجَهُمْ‏ وَ رُوحَهُمْ وَ رَاحَتَهُمْ وَ سُرُورَهُمْ وَ أَذِقْنِي طَعْمَ فَرَجِهِمْ وَ أَهْلِكْ أَعْدَاءَهُمْ مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ؛ خدایا! محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر درود بھیج، اُن کے فرج، راحت، سکون اور سعادت میں تعجیل فرما، اُن کی راحت کا ذائقہ مجھے چکھا، اور اُن کے دشمنوں کو جن و انس میں سے ہلاک کردے۔».[2]
  • شیخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں امیرالمؤمنینؑ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں صلوات کے بعد "عجل فرجهم" کا ذکر آیا ہے: «صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ‏ فَرَجَهُمْ؛ محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر درود بھیج اور اُن کے فرج میں تعجیل فرما۔».[3]
  • امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو بھی نماز صبح اور نماز ظہر کے بعد اس صلوات کو پڑھے گا وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک قائم عج کودرک نہ کرلے: «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ‏ فَرَجَهُمْ‏؛ اے پروردگار! محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر درود بھیج اور اُن کے فرج میں تعجیل فرما۔».[4]

علامہ مجلسی نے پہلی روایت کو معتبر قرار دیا ہے۔[5]

ان میں سے بعض روایات کے معتبر ہونے کی بنیاد پر، صلوات کے بعد "وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ" کے پڑھنے کا مستحب ہونا، معصومین علیہم السلام کی روایات سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات

  1. كلينى، محمد، الكافي، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق، ج‏۲، ص۵۷۰، حدیث۶.
  2. كلينى، محمد، الكافي، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق، ج‏۲، ص۵۸۳، حدیث۱۸.
  3. طوسى، محمد، تهذيب الأحكام، تهران، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ ق، ج‏۳، ص۸۲، حدیث۱۱.
  4. طوسى، محمد، مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد، بيروت، چاپ اول، ۱۴۱۱ ق، ج۱، ص۳۶۸.
  5. مجلسى، محمد باقر، مرآه العقول في شرح أخبار آل الرسول، تهران، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق، ج‏۱۲، ص۴۳۹ .