پروردگار عالم جنہیں دوست رکھتا ہے

نظرثانی بتاریخ 20:47، 22 دسمبر 2024ء از Ejazhmusavi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{شروع متن}} {{سوال}} قرآن کریم کے مطابق وہ کون لوگ ہیں جنہیں خداوند متعال دوست رکھتا ہے؟ {{پایان سوال}} {{پاسخ}} پروردگار عالم جنہیں دوست رکھتا ہے ان افراد کا تذکرہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں پانچ جگہوں پر ا...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
سؤال

قرآن کریم کے مطابق وہ کون لوگ ہیں جنہیں خداوند متعال دوست رکھتا ہے؟

پروردگار عالم جنہیں دوست رکھتا ہے ان افراد کا تذکرہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں پانچ جگہوں پر احسان کرنے والوں کو دوست رکھنے کا تذکرہ کیا ہے۔ دوسرا گروہ جنہیں خدا وند متعال دوست رکھتا ہے وہ متقین ہیں۔ تیسرا گروہ جنہیں خدا وند متعال دوست رکھتا ہے وہ صابرین ہیں۔ چوتھا گروہ جنہیں خداوند متعال دوست رکھتا ہے وہ مطہرین ہیں، پانچواں گروہ جنہیں خداوند متعال دوست رکھتا ہے وہ تائبین (توبہ کرنے والے) ہیں، چھٹا گروہ جنہیں خداوند متعال دوست رکھتا ہے وہ عدالت سے پیش آنے والے افراد ہیں۔

احسان کرنے والے

سانچہ:اصلی قرآن کریم کے مطابق خداوند متعال احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: «وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ»[1] احسان کرو، نیکی کرو کہ اللہ تبارک و تعالیی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

اس گروہ کو دوست رکھنے کا تذکرہ قرآن کریم میں پانچ جگہوں پر آیا ہے:

  • سورہ بقرہ کی آیت نمبر۱۹۵
  • سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۳۴ اور ۱۴۸
  • سورہ مائدہ کی آیت نمبر۱۳ اور۹۳ یہ وہ پانچ جگہیں ہیں جہاں پر خداوند متعال نے احسان کرنے والوں سے اپنی محبت کا اعلان فرمایا ہے۔

علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ احسان کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں کہ ہر وہ عمل جسے اچھے طریقہ سے بغیر نقص و عیب کے انجام دیا جائے وہ احسان ہے اور یہ ایسا عمل ہے جو صرف اور صرف خدااوند متعال سے مخصوص ہے۔[2]

محسنین سے خداوند متعال کی محبت کے سلسلے میں دو طرح کے آثار ذکر کیے گئے ہیں ایک دنیوی آثار اور دوسرے اخروی آثار: ہدایت، جلد از جلد اسی دنیا میں انجام دیے گئے اعمال کی جزا کا حصول، پروردگار عالم کی خاص مدد، رحمت الٰہی سے فیضیاب ہونا، اعلیٰ مقام و منزلت پر فائز ہونا وغیرہ وغیرہ محسنین کے دنیاوی آثار میں شمار کیے گئے ہیں۔ جب کہ بہشتی نعمتیں، بہت سارے انعامات، پاداش، جزا و صلہ، اعمال کی قبولیت اور عذاب سے محفوظ رہنا وغیرہ وغیرہ اخروی آثار میں شمار کیے گئے ہیں۔[3]

تائبین (توبہ کرنے والے) اور مطہرین (پاک و پاکیزہ رہنے والے)

سورہ بقرہ کی آیت نمبر۲۲۲ کی بنا پر خداوند متعال تائبین اور مطہرین کو دوست رکھتا ہے۔[4] توبہ کا مطلب خداوند متعال کی طرف پلٹنا ہے۔[5] «توّابین» انہیں کہا جاتا ہے جو بہت زیادہ توبہ کرتے ہیں۔ پروردگار عالم ہر طرح کی توبہ کو دوست رکھتا ہے مثلا استغفار کے ساتھ توبہ، عملی طور پر توبہ، سچھے دل سے توبہ و...۔[6]

ایک دوسری آیت میں پروردگار عالم مطہرین (پاک و پاکیزہ افراد) کو دوست رکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: «وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ»[7] اور خداوند متعال پاک و پاکیزہ افراد کو دوست رکھتا ہے ۔ طہارت اور پاکیزگی کا اطلاق وسیع معانی و مفاہیم پر ہوتا ہے جو روحانی طہارت جیسے شرک اور گناہ کے آثار سے پاک و پاکیزگی کو شامل ہے اسی طریقہ سے جسمانی طہارت جیسے نجاست وغیرہ سے پاک و پاکیزہ ہونے کو شامل ہے۔[8]

متقین اور جہاد

سانچہ:اصلی

 
إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِینَ

خداوند عالم کی طرف سے متقین اور پرہیزگاروں کو دوست رکھنے کی بات قرآن مجید میں سورہ توبہ کی آیات نمبر۴ اور۷ «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ» نیز سورہ آل عمران کی آیت نمبر۷۶ «بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ» میں آئی ہے۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں «تقویٰ» حرام کاموں سے پرہیز کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔[9] اور متقین تبہکاروں، گمراہوں، سرکشوں، ستمگاروں اور مجرموں جیسے گروہ کے مقابلہ میں قرار پاتے ہیں۔[10] سورہ بقرہ میں متقین کے لیے پانچ خصوصیتیں ذکر کی گئی ہیں۔

  • غیب پر ایمان
  • اقامۂ نماز
  • جو کچھ بھی انہیں روزی کی شکل میں دستیاب ہوتا ہے اس میں انفاق
  • پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور گزشتہ انبیائے کرام کے اوپر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر ایمان
  • آخرت پر یقین۔[11]

خداوند عالم سورہ صف[12] اور سورہ مائدہ[13] میں ان لوگوں کو دوست رکھنے کی بات کررہا ہے جو اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ارشاد ربانی ہوتا ہے: « إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِهِ» پروردگار عالم ان کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ۔ دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے: «فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ»۔[14] تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی، مومنین کے سامنے خاکسار، کفار کے سامنے صاحبِ عزت، راہ خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی۔

توکل

سانچہ:اصلی قرآن کی آیتوں کی بنیاد پر خداوند متعال توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: «إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلینَ»[15] پروردگار عالم متوکلین کو دوست رکھتا ہے۔

توکل کا معنی خداوند متعال پر اعتما، تکیہ اور بھروسہ کرنا ہے۔[16] توکل ایمان کا ایک دروازہ ہے۔[17] توکل کرنے والا وہ شخص ہے جو یہ جانتا ہے کہ اس کا رزق اور اس کے تمام امور خداوند متعال نے اپنے ذمہ لے رکھے ہیں۔[18] اسی وجہ سے وہ صرف اور صرف خدااند متعال پر بھروسہ کرتا ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتا ۔ جو لوگ خداوندعالم کے اوپر اعتماد اور بھروسہ (توکل) کرتے ہیں اور دوسروں سے کسی طرح کی امید نہیں رکھتے انہیں خداوند متعال دوست رکھتا ہے۔[19]

مفسرین قرآن نے قضا و قدر الٰہی پر رضا و تسلیم کو توکل سے تعبیر کیا ہے۔[20] اہل سنت کے ایک عظیم عالم دین غزالی کا بیان ہے کہ: «توکل» مقربین کے مقامات میں سے ایک ہے اور قلب کا خداوند متعال کے اوپر اعتماد و بھروسہ کرنا ہی توکل ہے۔[21]

آیت اللہ جعفر سبحانی کہتے ہیں کہ توکل سے مراد اپنے کاموں کو اللہ کے اوپر چھوڑ دینا ہے، البتہ ایسا نہیں ہے کہ ہم عالم اسباب اور مسبّبات کو نظر انداز کرکے ہمیشہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس کے انتطار میں رہیں کہ کوئی غیبی ہاتھ ظاہر ہوکر ہماری مدد کرے گا اور ہمارے کاموں کو مرحلہ تکمیل تک پہنچا دے گا۔[22]

صابرین

جو لوگ مصیبتوں اور کافروں کے مقابلہ میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہ کر صبر کو گلے لگائے رہتے ہیں انہیں خداوند متعال دوست رکھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: «وَ اللَّهُ یُحِبُّ الصَّابِرینَ»[23] پروردگار عالم صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوند متعال سے ایسا یقین چاہتے ہیں جس کے ذریعہ دنیا کی مصیبتیں ان کے اوپر آسان ہوجائیں۔[24]

عدل و انصاف کرنے والے

قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو دوست رکھنے کا ذکر تین جگہوں پر ہوا ہے۔ چنانچہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے: «إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ» قسط و عدل برپا کرنے والوں کو خداوند متعال دوست رکھتا ہے.[25]

عدل، ظلم و جور کے مقابلہ میں ایک اہم مسائل میں سے ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اور اس پر بہت زور دیا ہے۔[26] اور قرآن کریم میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ خداوند متعال نے انبیائے کرام کو لوگوں کے درمیان قسط و عدل برپا کرنے کے لیے مبعوث کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: «لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ»۔ بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ سماج و معاشرہ میں عدل وانصاف برپا کریں (عدل و انصاف سے پیش آئیں)۔[27]

حوالہ جات

  1. سوره بقره:۱۹۵
  2. طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمه: محمد باقر موسوی همدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش، ج۴، ص۲۸.
  3. ابوذر تشکّری صالح، آثار محبت خداوند به محسنین در قرآن، نشریه معرفت، مؤسسه آموزشی پژوهشی امام خمینی (ره)، شماره ۱۸۰.
  4. طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمه: محمد باقر موسوی همدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۱۷.
  5. طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا، ج۶، ۴۶۸.
  6. طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمه: محمد باقر موسوی همدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۱۸.
  7. سوره توبه:۱۰۸
  8. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الإسلامیه، چاپ دهم، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۱۴۰.
  9. طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمه: محمد باقر موسوی همدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش، ج۹، ص۲۰۲
  10. عباسی، بابک، «تقوا»، دانشنامه بزرگ اسلامی، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ۱۳۹۳ش، ج۷، ذیل مدخل.
  11. سوره بقره، آیات ۲ تا ۴.
  12. سوره صف، آیه ۴.
  13. سوره مائده، آیه ۵۴.
  14. سوره صف، آیه ۴.
  15. آل عمران:۱۵۹
  16. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الإسلامیه، چاپ دهم، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۵۴۱.
  17. مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، مدرسه علی بن ابی طالب، چاپ اول، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۲۶۶.
  18. حسینی، مالک، و دیگران، «توکل»، دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ۱۳۹۳ش، ج۸، ذیل مدخل.
  19. طبرسی، فضل، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ترجمه: گروهی از مترجمان، تهران، فراهانی، چاپ اول، بی‌تا، ج۴، ص ۳۱۵.
  20. میبدی، تفسیر کشف الاسرار و عده الابرار، به نقل از دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ج۱، ص۴۰۶۲.
  21. غزالی، کیمای سعادت، به نقل از شهیدی، سید جعفر، شرح مثنوی، ج۶، ص۳۵۳.
  22. سبحانی، جعفر، منشور جاوید، ج۳، ص۴۱۹.
  23. سوره آل عمران:۱۴۶
  24. محمد صادق عارف، راه روشن (ترجمه المحجة البیضاء)، الفیض الکاشانی، ج۷، ص۱۶۰.
  25. سوره مائده، آیه ۴۲. سوره حجرات، آیه ۹. سوره ممتحنه، آیه ۸.
  26. سبحانی، شیخ جعفر، منشور جاوید، ج۱۳، ص۱۶۸
  27. سوره حدید، آیه ۲۵.