قضا و قدر

ویکی پاسخ سے
سؤال

قضا و قدر کیا ہے؟

قضا و قدر الٰہی، اسلامی عقائد (الہیات اسلامی) کے بنیادی مفاہیم میں سے ایک اہم موضوع ہے جو دنیا میں واقع ہونے والے مظاہر، واقعات و حوادثات وغیرہ وغیرہ اور امور کے نظم و ضبط کے طریقے کو بتاتا ہے۔ قضا کا مطلب ہے کسی بھی کام، مظہر کا اس کے تمام مقدمات اور مادی شرائط کی فراہمی کے بعد اس کا قطعی اور حتمی طور پر تحقق پانا۔ دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے کہ الٰہی قضا بتدریج اور سببی عمل کا ناگزیر اور حتمی نتیجہ ہے جو کسی واقعہ کے وقوع کا باعث بنتا ہے۔ قدر یا تقدیر الٰہی کا مطلب خداوند متعال کی طرف سے ہر کام اور واقعہ کے اندازے، شرائط و حدود اور خصوصیات کا تعیّن کرنا ہے۔ یہ خصوصیات آہستہ آہستہ مختلف عوامل کے زیر اثر تحقق پاتی ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں قضا و قدر دو قسم علمی و عینی (معروضی) میں تقسیم ہوتی ہیں: قضا و قدر علمی: یہ قسم خداوند متعال کے علم سے مربوط ہے جو تحقق واقعات، حادثات اور مظاہر وغیرہ کے زمان، مکان اور طریقے وغیرہ کو شامل ہے۔ اس نظریہ کی بنا پر پروردگار عالم پہلے ہی سے جانتا ہے کہ کوئی بھی واقعہ کس اور کن حالات میں پیش آنے والا ہے۔ یہ علم الٰہی، اختیار انسان کے ساتھ تضاد اور ٹکراؤ نہیں رکھتا، کیوں کہ خداوند متعال انسان کے رضاکارانہ انتخاب سے بھر پور واقف ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسان اپنی مرضی، ارادے اور آزادی کے ساتھ کون سا طریقہ اپنائے گا۔ قضا و قدر عینی: قضا و قدر کی یہ قسم امور کے خارجی اور مشاہداتی طور پر تحقق پانے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس صورت حال میں خداوند متعال نے ہر موجود اور ہر واقعہ و مظہر کے لیے مقدارو اندازہ، خصوصیتیں اور محدودیتیں وغیرہ معین کی ہیں۔ قضا و قدر عینی و مشاہداتی کی مثالوں میں انسانی شکل و صورت، جنس، جلد کا رنگ اور یہاں تک کہ روئے زمین پر اس کی زندگی کا دائرہ وغیرہ وغیرہ شامل ہے۔ انسان کے اعمال اور اس کے طور طریقے اسی قضا و قدر عینی کے دائرے میں آتے ہیں۔ انسان ان محدودیتوں کے باوجود، اپنی زندگی کا راستہ اختیار کرنے میں مختار اور آزاد ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔

اسلامی عالمی نظریات میں قضا و قدر کا انسان کے ارادے و اختیار سے تضاد نہیں رکھتا ہے۔ اگرچہ خداوند متعال نے تمام امور کی عمومی جہتیں اور حدیں معین کردی ہیں، لیکن اعمال اور طرز عمل کا حتمی فیصلہ اور آخری انتخاب خود انسان کے ذمہ قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے انسان اپنے فیصلوں اور اعمال کے نتائج کا ذمہ دار خود ہوگا۔[1]

معنای قضا

لغت میں لفظ «قضا» فیصلہ دینے کے معنی میں آیا ہے، چاہے وہ عمل ہو یا قول اور چاہے اس کا تعلق خداوند متعال سے ہو یا اس کے علاوہ ہو۔[2] اسی طریقہ سے انجام تک پہنچانا اور فیصلہ کرنا کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ قاضی کا لفظ بھی اسی سے ماخوذ ہے اور اسے قاضی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دو لوگوں، دو فریقوں کے درمیان حکم کرتا اور ان کے کاموں کا فیصلہ کرتا ہے، اسی وجہ سے اسے قاضی کہا جاتا ہے۔[3]

قرآن کریم میں «قضا» تین معنوں میں استعمال ہوئی ہے[4]:

  • قضا، خلق، آفرینش اور کسی کام کو مکمل کرنے کے معانی میں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے: ﴿وَ قَضاهُنَّ سَبْعَ سَماواتٍ فِی یَوْمَیْنِ؛ پروردگار عالم نے ساتوں آسمانوں کو دو دن میں بنایا اور مکمل کیا ہے.[5]
  • قضا، کسی حکم کو لازم اور واجب کرنے کے معنی میں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:﴿وَ قَضی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ؛تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو.[6]
  • قضا، اعلان کرنا اور خبر دینے کے معنی میں ہے جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ قَضَیْنا إِلی بَنِی إِسْرائِیلَ فِی الْکِتابِ؛ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں خبر دی ہے۔[7]

قضائے الٰہی، علمائے علم کلام کی اصطلاح میں، «جبر و اختیار» کی بحث میں یہ بیان ہوا ہے کہ کسی بھی کام، واقعہ، مظہر وغیرہ کا تمام مقدمات، اسباب اورشرطوں کی فراہمی کے بعد حتمی اور نہائی مرحلے تک پہنچنا۔ قضائے الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام اور واقعہ وغیرہ کے مقدمات، اسباب اور شرائط کے تحقق کے بعد وہ اسے آخری اور حتمی مرحلے تک پہنچا دیتا ہے۔[8]

معنای قدر

قدر یا تقدیر الٰہی سے مراد یہ ہے کہ خداوند متعال نے ہر واقعہ کے لیے ایک خاص اندازہ، مقدار، کیفیت، زمان و مکان وغیرہ مقرر کیا ہے۔ درحقیقت قدر کا مرحلہ قضا سے پہلے ہے۔ قدر کا مرحلہ کسی کام یا واقعہ یا مظاہر کے اسباب وعلل اور اندازہ گیری فراہم کرنے کا مرحلہ ہے اور قضا کا مرحلہ، کام کو تمام اور اسے مکمل کرنے کا مرحلہ ہے۔[9]

قضا و قدر علمی اور عینی

قضا و قدر دو قسم علمی و عینی (معروضی) میں تقسیم ہوتی ہے:

قضا و قدر علمی

قضا و قدر علمی کا مطلب یہ ہے کہ خداوند متعال ہر رونما ہونے والے واقعہ کے بارے میں پہلے سے جانتا ہے کہ وہ واقعہ کس وقت، کس جگہ اور کن حالات اور شرائط میں تحقق پائے گا۔ یہ علم الٰہی، ہر واقعہ و مظہر کے مقدمات کی فراہمی، رونما ہونے کے اسباب وعلل اور اس کے یقینی و حتمی وقوع کو شامل ہے۔ ایسے علم کو قضا و قدر علمی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پروردگار عالم کے علم اور انسان کے اعمال، اس کے انتخاب اور اس کی مرضی کے درمیان میں ٹکراؤ نہیں پایا جاتا ہے۔ پروردگار عالم جانتا ہے کہ ہر فرد اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے کون سا راستہ اختیار کرے گا؛ خواہ وہ گناہ کی طرف پیش قدم ہو یا عمل صالح کی طرف قدم بڑھائے۔ انسان کے سارے اختیاری اعمال کے نتائج اور پیش آنے والے آثرات بھی علم الٰہی میں موجود ہیں۔ پس انسانوں کے انتخاب اور ان کے اعمال و افعال کے بارے میں خداوند متعال کا پہلے سے جاننا انسان کے اختیار اور آزادی کی نفی نہیں کرتا ہے، بلکہ دنیا کے تمام اسباب وعللی اور اختیاری نظام میں پروردگار عالم کی شمولیت کو ظاہر کرتا ہے۔[10]

قضا و قدر عینی

دنیا کی تمام موجودات چاہے وہ انسان ہوں یا دوسرے مظاہر، سب کے سب خاص حدود و قیود اور خاص خصوصیات و شرائط کے حامل ہیں۔ اس دنیا میں کوئی بھی موجود بالکل لا محدود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انسان کے اختیاری اعمال بھی مخصوص حالات اور محدودیتوں کے زیر اثر ہوتے ہیں مثلا انسان اپنے ہاتھ یا آنکھوں سے باتیں نہیں کرسکتا، اور جن چیزوں کے ذریعہ بات کرسکتا ہے تو اسے بات کرنے کے لیے گلا، زبان، دانت، لب وغیرہ کا صحیح و سالم ہونا بھی لازم و ضروری ہے تب جاکر کہیں بات وہ کرسکتا ہے۔ قضا و قدر عینی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک مظہر و واقعہ کی مقدار، حدود اور خصوصیات کو معین کرنا اس کے ساتھ ساتھ ان حالات و شرائط کا بھی تعین کرنا جس میں وہ تحقق پاتا ہے۔ یہ قضا و قدر الٰہی ذاتی خصوصیات اور تحققِ امور کے شرائط اور حالات کو بھی شامل ہے، جیسے کہ ہر موجود کن خصوصیتوں اور شرائطوں کے تحت اور کس وقت اور کہاں پر وجود میں آئے گا۔[11]

حوالہ جات

  1. الطبرانی، أبو القاسم (۱۴۱۵). المعجم الکبیر. ج. ۳. القاهرة: مکتبة ابن تیمیة. ص. ۵۸.
  2. راغب اصفهانی، حسین. مفردات الفاظ القرآن. ص. ۴۰۶.
  3. مصباح یزدی، محمدتقی. آموزش فلسفه. ج. ۲. ص. ۴۰۸ ؛ مصباح یزدی، محمدتقی. آموزش عقاید. ج. ۱. ص. ۱۸۰.
  4. حلی، حسن. کشف المراد. قم: مؤسسه نشر اسلامی. ص. ۳۱۵.
  5. سوره فصلت:۱۲
  6. سوره اسراء:۲۳
  7. سوره اسراء:۴
  8. مصباح یزدی، محمدتقی. آموزش عقاید. ج. ۱. ص. ۱۸۰.
  9. مصباح یزدی، محمدتقی. آموزش عقاید. ج. ۱. ص. ۱۸۰.
  10. خیدانی، لیلا (۱۳۸۸). «رابطه قضا و قدر با علم پیشین الهی و جبر و اختیار از دیدگاه صدرالمتالهین». تاملات فلسفی (۲): ۱۵۹-۱۶۰.
  11. سبحانی، جعفر. محاضرات فی الالهیات. قم. ص. ۲۲۶-۲۲۷.