ائمہ کا حدیث غدیر سے استدلال
ائمہ معصومین علیہم السلام میں سے کس نے اثبات امامت کے لیے حدیث یا خطبۂ غدیر سے استدلال کیا؟
حضرت امام علی، شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام نے اپنے مخالفین کے ساتھ بعض احتجاج میں’’خطبہ غدیر‘‘ یا ’’حدیث غدیر‘‘ سے استدلال کیا ہے۔ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اپنی خلافت کے لیے متعدد موارد میں ’’حدیث غدیر‘‘ کے ذریعہ استدلال کیا ہے۔
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے سقیفہ میں واقع ہونے والے حادثہ کے بعد ابو بکر (خلیفہ اول) کے ساتھ ایک نششست میں، عمر بن خطاب (خلیفہ دوم) کے بعد ان کی جانشینی کے انتخاب پر چھہ افراد کی کمیٹی (شورا) میں، عثمان بن عفان (خلیفہ سوم) کی خلافت کے ایام میں اور اپنی خلافت کے دوران اس حدیث (حدیث غدیر) کے ذریعہ استدلال کیا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے مہاجر و انصار کے ساتھ ایک نشست میں حدیث غدیر سے استدلال کیا اور انہیں اس حدیث کو بھول جانے کی وجہ سے سرزنش بھی کی۔ امام حسن علیہ السلام نے بھی صلح امام حسن ؑ کے دوران یعنی معاویہ کے ساتھ صلح کرتے وقت اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کون مقام امامت و خلافت کی اہلیت رکھتا ہے حدیث غدیر کے ذریعہ استدلال کیا۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے بھی مرگ معاویہ سے پہلے اپنے سفر حج کے دوران ایک خطاب میں معاویہ کو غاصب خلافت قرار دیا اور امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے حدیث غدیر سے استدلال کیا۔
امام علی علیہ السلام
امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام نے بہت سے مواقع پر اپنی خلافت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے حدیث غدیر کے ذریعہ استدلال کیا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ میں رونما ہونے والے حادثہ کے بعد جب ابو بکر (خلیفہ اول) نے دیکھا کہ علیؑ بن ابی طالبؑ ان کی بیعت نہیں کررہے ہیں تو اس نے ایک خصوصی ملاقات کی درخواست کی اور امیر المؤمنین سے کچھ گفتگو کی۔ امیر کائنات علیہ السلام نے اپنے فضائل کو اس کے سامنے گنوانا شروع کیا اور فرمایا : «أَنْشُدُکَ بِاللَّهِ أَنَا الْمَوْلَی لَکَ وَ لِکُلِّ مُسْلِمٍ بِحَدِیثِ النَّبِیِّ ص یَوْمَ الْغَدِیرِ أَمْ أَنْتَ قَالَ بَلْ أَنْت[1]؛ کہ تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حدیث، غدیر خم میں بیان کی تھی اس کے مطابق تمہارا اور تمام مسلمانوں کا مولا میں ہوں یا تم؟ ابو بکر نے جواب دیا: بلکہ آپ ہیں۔»
عمر بن خطاب کے بعد خلیفہ کی تعیین کے لیے چھہ افراد کی کمیٹی (شورا) کے ساتھ ایک جلسہ میں حدیث غدیر سے استدلال: امیر کائنات نے اہل شورا کے درمیان دوسروں پر اپنی اولویت اور فضیلت ثابت کرنے کے لیے بہت سے استدلالات کرتے ہوئے فرمایا: (نقل قول) کیا میرے علاوہ کوئی اور ہے جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں ولایت پر منصوب کیا تھا؟ سبھی نے ایک زبان ہوکر کہا: خدا کی قسم نہیں.[2]
خلافت عثمان بن عفان کے زمانہ میں حدیث غدیر سے استدلال: مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے خلافت عثمان کے زمانہ میں قریش اور انصارکے بعض لوگوں کے درمیان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غدیر خم میں دیے گیے خطبہ اور آیت اکمال «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا[3]؛ کے نزول نیز ابو بکر، عمر اور دوسرے لوگوں نے جو آپ کی بیعت کی تھی اس کی تصریح کی تو ان لوگوں نے کہا: یا علی! آپ نے ان ساری باتوں کو اچھی طرح حفظ کررکھا ہے جب کہ ہم لوگ تو اس خطبہ کے کچھ حصے بھول چکے ہیں»۔[4]
اپنی خلافت کے دور میں حدیث غدیر کے ذریعہ استدلال:
امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے دوران ’’رحبہ‘‘ میں غدیر کے دن کی یاد دہانی کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا:
- «قال: نشد على الناس في الرحبة من سمع رسول اللَّه (صلى اللَّه عليه و سلّم) يقول يوم غدير [ما قال إلا قام، فقام بضعة عشر رجلا منهم أبو أيوب، و أبو زينب بن عوف، فقالوا: نشهد أنا سمعنا رسول اللَّه (صلى اللَّه عليه و سلّم) يقول، و أخذ بيدك يوم غدير] فرفعها، فقال: ألستم تشهدون أنّي قد بلّغت؟ قالوا: نشهد، قال: «فمن كنت مولاه فعليّ مولاه»۔
میں تم سب کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ہر وہ مسلمان جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روز غدیر خم سنا تھا کہ انہوں نے کیا فرمایا تھا تو وہ کھڑا ہوجائے اور جو کچھ سنا تھا اس کی گواہی دے۔ اور جس شخص نے اس دن صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تھا وہ کھڑا نہ ہو۔ اس کے بعد کچھ صحابہ کھڑے ہوئے اور جو کچھ نص غدیر کے بارے میں یعنی روز غدیر جو کچھ ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ سنا تھا اور اس کے شاہد تھے اسے بیان کیا اور شہادت دی۔[5]
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ زید بن ارقم نے گواہی نہیں دی تو امام عالی مقام نے اس پر لعن و نفرین کی، جس کی وجہ سے اس کی آنکھ کی روشنی ختم ہوگئی اور وہ نابینا ہوگیا.[6]
مہاجر و انصار کے ایک گروہ کے مقابلہ میں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج؛ تخت خلافت پر بیٹھنے کے بعد کوفہ کے لوگوں کے سامنے احتجاج؛ جنگ جمل میں احتجاج؛ جنگ صفین میں احتجاج؛ اور بھی دوسرے موارد ایسے ہیں جو تاریخی مصادر و مآخذ میں موجود ہیں۔[7]
علامہ امینی ؒ نے ’’کتاب الغدیر‘‘ کے علاوہ اس موضوع پر ایک مستقل ’’المناشدہ و الاحتجاج بحدیث الغدیر‘‘ نامی کتاب تحریر کی ہے۔ علامہ امینیؒ نے اپنی اس کتاب میں اہل سنت و الجماعت کی روایتوں کو سند کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اس میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اپنی خلافت کے سلسلہ میں حدیث غدیر سے استناد اور استدلال کرتے تھے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
علمائے اہل سنت میں سے ایک جید عالم ابن جزری ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا:
- کیا تم لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان جسے روز غدیر ارشاد فرمایا تھا بھول گیے ہو کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی ؑ مولا ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ اے علی! تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کی نسبت موسی علیہ السلام کے ساتھ تھی۔[8]
محمود بن لبید بیان کرتے ہیں: کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شہدائے احد کی قبروں کے پاس جاکر گریہ کررہی تھیں، میں نے ان سے سوال کیا: کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؑ کی امامت کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا:
- «وَا عَجَبَاهْ أَ نَسِیتُمْ یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ؛ وا عجباہ[9]! تم نے روز غدیر خم کو بھلا دیا ہے؟!»
محمود بن لبید نے کہا: ایسا ہی ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سے فرمایا ہے وہ سنوں۔ تو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا:
- «قَالَتْ أُشْهِدُ اللَّهَ تَعَالَى لَقَدْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ عَلِيٌّ خَيْرُ مَنْ أُخَلِّفُهُ فِيكُمْ وَ هُوَ الْإِمَامُ وَ الْخَلِيفَةُ بَعْدِي وَ سِبْطَايَ وَ تِسْعَةٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ أَئِمَّةٌ أَبْرَار؛ میں خداوند متعال کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا: علی ایک بہترین جانشین ہیں جنہیں میں تمہارے درمیان چھوڑ رہا ہوں (یعنی علی تمہارے لیے ایک بہترین جانشین ہیں) اور وہ میرے بعد میرے خلیفہ اور امام ہیں اور میرے دونوں بیٹے (امام حسن و امام حسین علیہما السلام) اور حسین ؑ کی نسل سے نو فرزند نیک ائمہ ہیں۔»[10]
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے ۴۱ھ میں معاویہ کے ساتھ صلح کے دوران یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کون مقام امامت و خلافت کی اہلیت و شائستگی رکھتا ہے حدیث غدیر کے ذریعہ استدلال کیا اور فرمایا:
- «و قد رأوه و سمعوه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم حين أخذ بيد أبي بغدير خم و قال لهم: من كنت مولاه فعلي مولاه، اللّهم وال من والاه و عاد من عاداه. ثم أمرهم أن يبلغ الشاهد منهم الغائب؛ یقینا سب نے دیکھا اور سب نے سنا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں میرے والد گرامی کا ہاتھ پکڑکر لوگوں سے کہا: جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں، خدایا! تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی سے دشمنی کرے۔ اور مزید ارشاد فرمایا: جو لوگ یہاں حاضر ہیں وہ اس بات کو غائبین تک پہنچا دیں»۔[11]
اس خطبہ کو شیخ طوسیؒ نے امالی میں معمولی فرق کے ساتھ ذکر کیا ہے.[12]
امام حسین علیہ السلام
امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام نے معاویہ کے مرنے سے پہلے ۵۸ یا ۵۹ ہجری میں مکہ مکرمہ کے سفر حج کے دوران سرزمین منا پر بنی ہاشم اور اپنے چاہنے والوں (شیعوں) کو جمع کیا اور اپنے بیان میں معاویہ کو غاصب خلافت قرار دیا اور امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت کے لیے حدیث غدیر غم سے استدلال و استناد کرتے ہوئے لوگوں سے پوچھا:
- «أَنْشُدُکُمُ اللَّهَ أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ نَصَبَهُ یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ فَنَادَی لَهُ بِالْوَلَایَةِ وَ قَالَ لِیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَم[13]؛ میں تم سب کو خدا وند متعال کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے والد حضرت علی کو غدیر خم میں ولایت کے لیے منصوب کیا تھا؟ اور مزید کہا کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ غائبین تک خبر پہنچا دیں۔ تو سب نے ایک زبان ہوکر کہا: ہاں یہ بات صحیح ہے، یعنی ہم گواہی بھی دیتے ہیں اور غائبین تک آپ کی بات کو بھی پہنچا دیں گے»۔
حوالہ جات
- ↑ ابن بابویه، محمد بن علی، الخصال، قم، جامعه مدرسین، چاپ اول، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۵۰.
- ↑ ابن مردویه اصفهانی، احمد بن موسی، مناقب علی بن أبی طالب وما نزل من القرآن فی علی، قم، دار الحدیث، چاپ دوم، ۱۴۲۴ق/۱۳۸۲ش، ص۱۳۲.
- ↑ سوره مائده، آیه۳.
- ↑ قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع المودة لذوی القربی، دار الأسوة للطباعة والنشر، چاپ اول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۳۴۷. شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمه، قم، مؤسسة النشر الإسلامی، ۱۴۰۵ق، ص۲۷۷.
- ↑ ابن حجر، الاصابه، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۵ق، ج۷، ص۱۳۶. ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابه، بیروت، دار الکتاب العربی، ج۳، ص۳۰۷.
- ↑ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبه الله، شرح نهج البلاغه، قم، کتابخانه مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۷۴.
- ↑ امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنه و الادب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیه، چاپ اول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۳۳۴. ص۳۳۹. ص۳۷۸ و ص۳۹۴.
- ↑ ابن جزری، محمد، أسنی المطالب فی مناقب الإمام علی، بیجا، بینا، بیتا، ج۱، ص۵۰.
- ↑ خزاز رازی، علی بن محمد، کفایة الأثر فی النصّ علی الأئمة الإثنی عشر، قم، نشر بیدار، ۱۴۰۱ ق، ص۱۹۸.
- ↑ خزاز رازی، علی بن محمد، کفایة الأثر فی النصّ علی الأئمة الإثنی عشر، قم، نشر بیدار، ۱۴۰۱ ق، ص۱۹۸.
- ↑ قندوزی حنفی، سلیمان بن ابرهیم، ینابیع الموده لذوی القربی، بیجا، دار الأسوة للطباعة والنشر، چاپ اول، ۱۴۱۶ق، ج۳، ص۳۶۹.
- ↑ طوسی، محمد بن الحسن، الأمالی، قم، دار الثقافه، چاپ اول، ۱۴۱۴ق، ص۵۶۶، مجلس۲۱.
- ↑ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق، ج۳۳، ص۱۸۳. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۳۹۸.