اسلامی معاشرے میں تکفیر کا سلسلہ

ویکی پاسخ سے
سؤال

مسلمانوں میں تکفیر کا سلسلہ کب اور کیوں شروع ہوا؟

اسلامی معاشرے میں تکفیر سے مراد یہ ہے کہ جو شخص اسلام اور ایمان کا مدعی ہے اس کی طرف کفر کی نسبت دینا۔ یعنی ظاہرا جو مسلمان اور مومن ہے اس کی طرف کفر کی نسبت دینا اور اسے کافر قرار دینا۔ یہ تکفیری رجحان دو طریقے سے تحقق پاتا ہے ایک انفرادی اور دوسرے گروہی جسے ایک فکری تحریک کی صورت میں بھی جانا جاسکتا ہے۔ ان دونوں میں سے جو خطرناک ہے وہ تکفیری تحریکیں ہیں جو اپنی مخصوص بنیادوں پر مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہیں؛ جیسے خوارج، مسلمانوں کو گناہ کبیرہ کی بنیاد پر کافر قرار دیتے ہیں۔ سلفی اور وہابی لوگ، مسلمانوں کو قبروں کی زیارت، توسل، شفاعت، تبرک وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے تکفیر کرتے ہیں یعنی کافر قرار دیتے ہیں۔

انفرادی تکفیر

اس قسم کی تکفیر جو عموما بے بنیاد باتوں، بغض و حسد اور عداوت کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے یعنی اس کی طرف کفر کی نسبت دے۔ صدر اسلام میں یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور ان کے بعد خلفاء کے زمانے میں ممکن ہے کہ بعض مسلمانوں کو بعض دوسرے افراد نے تکفیر کیا ہو؛ مثال کے طور پر ابو بکر کی خلافت کے دوران، مالک بن نویرہ اور ان کی قوم کو زکات کی عدم ادائیگی کے بہانے تکفیر کا سامنا کرنا پڑا اور ان سب کو خالد بن ولید نے قتل کردیا۔[1] لیکن اس طرح کی تکفیروں کو ذاتی، شخصی اور انفرادی تکفیر میں شمار کیا جاتا ہے اور ان پر تکفیری تحریک کا اطلاق نہیں ہوتا۔

تکفیری فرقوں کی تحریک

وہ چیز جس نے دنیائے اسلام کی توجہ کو اپنی طرف جذب کر رکھا ہے وہ تکفیری تحریکیں ہیں جو مذہب اور فرقہ کی شکل میں مسلمانوں کے مقابلہ میں قرار پائی ہیں۔ یہ تکفیری تحریکیں تحولاتی مراحل اور نشیب و فراز سے گزریں ہیں جن کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔

تکفیری خوارج کی تحریک

تکفیری تحریک ایک خاص فکر و نظر کے تحت تحقق پاتی ہے۔ تکفیری تحریکوں اور گروہوں میں سب سے پہلے خوارج فرقہ ایک تکفیری ٹولہ کی شکل میں مسلمانوں کے درمیان ظاہر ہوا۔ «خوارج» خارجی کی جمع اور «خروج» سے ماخوذ ہے جو سرکشی، طغیان اور بغاوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے اردو میں شورش بپا کرنے والے یا بغاوت کرنے والے کہا جاتا ہے۔[2]

فرقۂ خوارج ۳۷ہجری میں جنگ صفین کے دوران حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان حکمین کے فیصلے کے بعد وجود میں آیا۔[3] اس فرقہ کے کچھ پیروکار حضرت علی علیہ السلام کے سپاہیوں میں سے تھے جو شروع میں معاویہ اور عمروعاص کے فریب میں آکر معاویہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش پر راضی ہوگئے اور مولائےکائنات حضرت علی علیہ السلام کو مجبور کرنے لگے کہ وہ حکمیت (ثالثی) کو قبول کریں۔ ہوا ایسا ہی، لیکن حکمین کے فیصلے کے بعد ثالثی کے طرفداروں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا، بجائے اس کے کہ وہ اپنے آپ کو ملامت کرتے اور آکر حضرت علی علیہ السلام سے معافی مانگتے، عذرخواہی کرتے اس سے بھی بڑی ایک اور غلطی کر بیٹھے اور «لا حکم الا للہ» یعنی اللہ کے حکم کے سوا کسی کا کوئی حکم نہیں ہے، کا نعرہ لگانے لگے۔[4] جب غچہ کھاچکے تو انہوں نے حکمیت اور فیصلے کو بنیادی طور پر مردود، خلاف حکم خدائے متعال اور شرک و کفر کی بنیاد قرار دیا۔[5] اس کے بعد انہوں نے حضرت امام علی علیہ السلام سے کہا کہ اپنے کیے ہوئے پر توبہ کریں اور عہد نامۂ جنگ بندی کو نقض کرکے معاویہ کے ساتھ دوبارہ جنگ شروع کریں۔[6]

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے ان کے روبرو ہوکر انہیں یاد دہانی کرائی کہ حکمیت کا نظریہ بالکل غلط ہے؛ کیوں کہ جو لوگ فیصلہ کرنے والے قرار دیے گئے ہیں وہ افراد نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم فیصلہ کرنے والا ہے اورخداوند متعال نے حکم دیا ہے کہ تنازعات میں اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے۔[7] قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کریں اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کا مطلب یہ ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کریں، جب بھی قرآن کریم اور سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں فیصلہ ہوگا تو وہ ہمارے حق میں ہوگا۔[8]

جو بھی گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے خوارج اسے کافر کہتے ہیں۔ خوارج کے بعد بنی امیہ نے شیعوں کی تکفیر کی اور اسی الزام کے تحت بہت سے شیعوں کا قتل عام کیا۔

بربہاری تکفیری گروہ

چوتھی صدی ہجری میں مشہور حنبلی علماء میں سے ایک ابو محمد نامی عالم نے قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا جس کی عباسی خلیفہ نے مخالفت کی اور اس کی باتوں کو ماننے سے انکار کیا۔ بیان کیا گیا ہے کہ اسی چوتھی صدی ہجری میں عبد اللہ بن محمد عبکری جو «ابن بطہ» کے نام سے مشہور ہے اور ۳۷۸ھ میں انتقال کیا ہے، نے بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت اور ان کی زیارت سے انکار کیا ہے اور پیغمبر کے قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنے کو سفر معصیت قرار دیا ہے ۔ یعنی جو بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کو جائے گا وہ گنہگار ہوگا۔[9]

«بربہاری» نے ان لوگوں کی شدت کے ساتھ تردید کی ہے جو اس کی نظر میں اہل بدعت تھے اسی مبنیٰ کے تحت جو بھی اس کا مخالف تھا ان لوگوں کی یہ تکفیر کرتا اور اپنے مخالفین کو دبانے و کچلنے کے لیے ایک گروہ بھی بنایا تھا جو اسی کام پر مأمور تھا۔ اس کے اسی کام کی وجہ سے عباسی خلیفہ «قاہر باللہ» اس سے ناراض اور اس پر غضبناک ہوا جس کے نتیجہ میں اسے بصرہ کی طرف جلا وطن کردیا۔ «راضی باللہ» کے زمانہ میں «بربہاریہ» گروہ کی فتنہ انگیزی نے شدت پکڑ لی اسی وجہ سے عباسی خلیفہ کی طرف سے اس گروہ کے دو لوگوں کا شہر میں ایک ساتھ جمع ہونے کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ عباسی حکومت کی سختی کے نتیجے میں «پر بہاری» کہیں چھپ گیا اور اسی مقام پر دنیا سے کوچ کرگیا۔[10]

بغداد میں «بربہاری» کے بہت سے افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا اور بہت سے لوگ چھپ کر زندگی بسر کرنے لگے یا دوسرے شہروں کی طرف بھاگ کر وہاں پناہ گزیں ہوگئے۔[11]

ابن تیمیہ، بربہاری تحریک کا احیا کرنے والا

بربہاری تحریک کے بعد جسے عباسی خلیفہ نے دبا دیا تھا، ساتویں صدی ہجری ۶۶۱ہجری میں پیدا ہونے والا شخص احمد بن عبد الحلیم حرانی جو ابن تیمیہ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے بربہاری کے نظریات کو دوبارہ زندہ کیا اور مسلمانوں کو زیارت، توسل، شفاعت اور تبرک جیسے اعتقادات کی وجہ سے تکفیر کیا۔

درحقیقت ابن تیمیہ وہابیت کے عقائد کا بانی ہے۔ اس نے شرک اور توحید کے محور پر متعدد کتابیں تحریر کی ہیں جن میں اس نے زیارت کی حرمت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے اولیائے کرام سے شفاعت کے سلسلے میں کافی تفصیل کے ساتھ اپنے نظریہ کا زہر اُگلا ہے۔ ابن تیمیہ کے عجیب و غریب ایجاد کردہ نظریات کے خلاف اس کے ہم عصر اور بعد کے بھی علمائے اسلام خواہ وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت سب نے مل کر اس کی تردید کی اور اس کے عقائد کی رد میں اس کے خلاف بے شمار علماء و دانشوروں نے بہت سی کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔[12]

محمد بن عبد الوہاب ابن تیمیہ کے نظریات کو پروان چڑھانے والا

ابن تیمیہ کے بعد اسلامی دنیا میں تکفیر کا رواج زیادہ نمایاں نہیں تھا یہاں تک کہ بارہویں صدی ہجری میں محمد بن عبد الوہاب نے ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کو دوبارہ زندہ کرکے اسے پروان چڑھانا شروع کیا۔ محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان تمیمی ایک قول کی بنا پر ۱۱۱۱ھ میں پیدا ہوا اور ایک دوسرے قول کے مطابق ۱۱۱۵ھ (۱۷۰۳ء یا۱۷۰۴ء) میں نجد کے شہر عیینہ میں پیدا ہوا تھا۔[13]

وہابیوں کے رہنما محمد بن عبد الوہاب نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے اہداف و مقاصد کو پورا کرنے میں مسلمانوں کے ساتھ اس قدر عداوت کا مظاہرہ کیا کہ آخر کار اس نے انتہائی سخت الفاظ میں یہ بیان دیا کہ:

«دور حاضر کے مسلمانوں کا شرک زمانۂ جاہلیت کے بت پرستوں سے زیادہ شدید ہے؛ کیوں کہ زمانۂ جاہلیت کے مشرکین صرف خوشحالی اورآرام و آسائش کی حالت میں مشرک تھے لیکن جب وہ مصیبت میں گرفتار ہوتے تو توحید پرست اور خداپرست بن جاتے تھے؛ جب کہ اس وقت کے مسلمان دونوں صورتوں (سختی اور آسانی کی حالت) میں مبتلائے شرک اور مشرک ہیں۔[14] وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جو بھی مشرکین (مسلمانوں) کی تکفیر نہیں کرتا وہ اسلام کے بہت بڑے خلاف ورزوں میں سے ہے.».[15]

اس سلسلے میں قنوجی کہتے ہیں: ہمارے زمانے میں محمد بن عبد الوہاب کے تمام چاہنے والے اور اس کے پیروکاروں نے نجد سے خروج کیا اور حرمین شریفین (مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ) پر قابض ہوگئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو حنبلی مذہب سے منسوب کیا۔ نیز ان لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ صرف وہی لوگ مسلمان ہیں ان کے علاوہ چاہے جو بھی ہو سب کے سب مشرک ہیں اور اسی مبنیٰ اور شعار کے تحت اہل سنت اور ان کے علماء کا قتل مباح جانتے ہیں۔[16]

اس تحریک یا اس گروہ کو «سلفی تکفیری» کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سلفیوں کا یہ گروہ اپنے مخالفین کو کافر سمجھتا ہے۔ دور حاضر میں وہابیت، سلفی تکفیری کی ایک زندہ مثال اور مصداق ہے؛ کیوں کہ نظریۂ وہابیت کی بنیاد پر تمام مسلمان اپنے بعض مذہبی کاموں کی وجہ سے مشرکوں کی صف میں داخل ہوجاتے ہیں اور ان کے نزدیک وہ «مہدور الدم» شمار کیے جاتے ہیں۔ «مہدور الدم» یعنی ان کا قتل اور خون بہانا جائز ہے۔ اسی وجہ سے اگر ملاحظہ کیا جائے تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہابیوں کی تمام جنگیں صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف لڑی گئی ہیں۔[17] اس وقت تمام کے تمام تکفیری ٹولے وہابیت کے افکار و نظریات سے متأثر ہیں اور یہ سب کے سب سلفی تکفیری ہیں جو دوسرے مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور ایسے کاموں کے ذریعے اسلام کے اصلی دشمنوں کی خدمت کرنے میں مشغول ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی ہدایت کرے۔

حوالہ جات

  1. طبری، ابو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار الکتب العلمیه، بی‌تا، ج۲، ص۲۷۲–۲۷۳.
  2. حوزی شرنومی، سعید، اقرب الموارد، بیروت، مطبعه مرسلی الیسوعیه، ۱۸۸۹، ج۱، ص۲۶۴.
  3. دینوری، اخبار الطوال، ترجمه محمود مهدی دامغانی، تهران، نشر نی، چ۴، ۱۳۷۱ ش، ص۲۳.
  4. دینوری، اخبار الطوال، ص۲۳.
  5. دینوری، اخبار الطوال، ص۲۴۷.
  6. دینوری، اخبار الطوال، ص۲۵۲.
  7. سوره نساء، ۵۹.
  8. فیض الاسلام، نهج البلاغه، ص۳۸۶، خطبه ۱۲۵.
  9. . فقیهی، علی اصغر، وهابیان، انتشارات اسماعیلیان، چ۲، ۱۳۶۴ ش، ص۱۹ و ۲۰.
  10. زرکلی، خیر الدین، الأعلام، ج۲، ص۲۰۱، بیروت، دار العلم للملایین، چ۵، ۱۹۸۰م.
  11. ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک، ج۱۳، ص۲۴۹، بیروت، دار الکتب العلمیه، چ۱، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م. وتحقیق: محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا.
  12. ‌کثیری، سید محمد، السلفیه بین السنه و الامامیه، ص۲۳۵–۲۳۹، بیروت، انتشارات غدیر، چ۱، ۱۴۱۸ ق.
  13. سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، ج۴ ص۳۳۴، مؤسسه نشر اسلامی، چ۳، ۱۴۱۴ ق.
  14. محمد بن عبدالوهاب عزیزالعظمه، ص۱۲۱؛ محمد بن عبدالوهاب، کشف الشبهات، ص۳۳و۳۴، ریاض، وزارت الشئون الاسلامیه، چ۶،۱۴۲۰ق.
  15. عبدالحلیم عوبیس، الدعوه علی منهج النبوه (اثرالتجدید فی الجزائر) ص۱۳۵، ریاض، ۱۴۲۳ق.
  16. قنوجی، صدیق بن حسن، ابجدالعلوم، ۳ / ۱۹۸، دارالکتب العلمیه، ۱۹۹۸ م به نقل از حاشیه ابن عابدین.
  17. علی‌زاده موسوی، سید مهدی، سلفی‌گری و وهابیت (تبارشناسی)، ج۱ص۹۴–۹۵، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، معاونت فرهنگی