امام علیؑ کی 25 سالہ خاموشی

  1. تغییر_مسیر الگو:پاسخ
سؤال

پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد ابتدائی سالوں میں امام علیؑ نے عوامی زندگی سے کنارہ کشی کیوں اختیار کی؟ کیا ان کی خاموشی اسلام کے لیے مفید ثابت ہوئی یا ان کا اقدام زیادہ بہتر ہوتا؟

پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد امام علیؑ کی 25 سالہ خاموشی کی وجہ اسلام کی حفاظت اور مسلم معاشرہ کے اتحاد کو برقرار رکھنا قرار دیا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد مسلم معاشرہ شدید بحران کا شکار ہو گیا تھا اور جاہلیت کے کچھ رسم و رواج دوبارہ زندہ ہونے لگے تھے۔ ایسے حالات میں ابو سفیان اور عباس بن عبد المطلب جیسے افراد نے امام علیؑ کو خلیفہ کے خلاف اقدام کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان سے بیعت کی پیشکش کی۔ لیکن امام علیؑ نے، قابل اعتماد حمایتیوں کی کمی اور اختلافات سے بچنے کے لیے، عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی۔

مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت

زیادہ تر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے وقت اسلام، جو کہ ابھی ایک نیا اور نازک انقلاب تھا، اتحاد اور ہم آہنگی کا محتاج تھا.[1] کچھ مورخین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد جاہلی عرب اپنی پرانی حالت کی طرف لوٹنے لگے، اور منافقین ظاہر ہو گئے.[2]

منافقین کی جانب سے اختلافات پیدا کرنے کی کوشش

مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ تھا کہ امام علیؑ کو حکومتی سربراہوں سے ٹکرایا جائے۔ اسی مقصد کے تحت ابو سفیان نے عباس کی حمایت حاصل کرتے ہوئے بنی ہاشم کے کچھ افراد کے ساتھ امام علیؑ کے پاس جا کر بیعت کی پیشکش کی۔ ابو سفیان نے امام علیؑ کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے کہا:

’’اے ابو الحسن، اس موقع کو ضائع نہ کریں۔ ہم کب سے تیم کے خاندان (ابو بکر کے خاندان) کے پیروکار بن گئے ہیں؟‘‘[3]

امام علیؑ نے جواب میں فرمایا:

’’تم خوب جانتے ہو کہ خلافت کے معاملے میں، میں سب سے زیادہ حق دار ہوں۔ خدا کی قسم، جب تک مسلمانوں کے معاملات درست رہیں گے اور صرف مجھ پر ظلم کیا جائے گا، میں خاموش رہوں گا‘‘۔[4] البتہ، اگر امام علیؑ نے حالات کو قیام کے لیے موزوں سمجھا ہوتا تو وہ کسی دعوت کے بغیر اقدام کر لیتے۔

ایک اور وجہ قیام نہ کرنے کی حمایتیوں اور مددگاروں کی کمی تھی۔ ایک تحریک کے لیے عوامی حمایت ضروری ہوتی ہے اور اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ امام علیؑ نے فرمایا:

’’میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ میرے خاندان کے سوا کوئی حمایتی نہیں ہے۔ میں ان کی موت کو قبول نہیں کر سکتا تھا‘‘۔[5]

خاموشی کے دور میں امامت

تینوں خلفاء کے 25 سالہ دورِ حکومت میں امام علیؑ نے اسلامی معاشرے کی رہنمائی کے لیے اپنی پوری کوشش کی۔ معاصر مورخ جعفر شہیدی کے مطابق، جہاں کہیں لوگوں کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی، امامؑ ان کی رہنمائی کرتے۔ جب کوئی مسئلہ پیش آتا، امامؑ اسے حل کرتے۔ جب کوئی غلط فیصلہ ہوتا، امامؑ درست راستہ دکھاتے۔ جو افراد ان سے پہلے خلافت پر قابض تھے، امامؑ نے ان کی رہنمائی سے کبھی دریغ نہیں کیا.[6]

حوالہ جات

  1. سبحانی، جعفر، المذاهب الاسلامیه، ص۱۹۴، مؤسسه امام صادق ـ علیه السّلام ـ، جاول، ۱۴۲۳ قمری.
  2. سیره ابن هشام، جلد ۴، ص۳۱۶، به نقل از مکارم، شیرازی، پیام امام، جاول، چ اول، ۱۳۷۵، ناشر دارالکتب الاسلامیه.
  3. اقتباس از: ری شهری، محمد، رهبری در اسلام، ص۲۳۴، دارالحدیث، چ اول، ۱۳۷۹.
  4. نهج البلاغه، خطبه ۷۴.
  5. نهج البلاغه، خطبه ۲۶.
  6. شهیدی، جعفر، علی از زبان علی، ص۴۲ش، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، جششم، ۱۳۷۶.

رده:امام علی(ع)رده:تاریخ و سیره معصومان