حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا محدثہ ہونا
- تغییر_مسیر الگو:پاسخ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو "محدثہ" کیوں کہا جاتا ہے؟
"محدثہ" حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے القاب میں سے ایک ہے، جس کا مطلب ہے "وہ ہستی جس سے فرشتے بات کرتے ہیں۔" حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو یہ لقب اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ فرشتوں سے بات کرتی تھیں اور ان کی باتیں سنتی تھیں۔
مفہوم شناسی محدث اور محدثہ
محدث اور محدثہ (دال پر زبر اور تشدید کے ساتھ) اس شخص کو کہا جاتا ہے جس سے بات کی جاتی ہے یا جسے الہام ہوتا ہے۔[1] اسلامی روایات میں محدث کو وہ شخص سمجھا گیا ہے جو فرشتوں کی آوازیں سنتا ہے، اس کے کان میں ندا دی جاتی ہے اور وہ اس کے دل میں اتر جاتی ہے۔[2] دیگر کتابوں میں محدث کو وہ فرد بھی بیان کیا گیا ہے جو پیغمبر نہ ہونے کے باوجود فرشتوں سے بات کرتا ہے۔[3]
تمام ائمہ معصومین (علیہم السلام) محدث تھے اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) بھی محدثہ تھیں۔[4] جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ پیغمبر نہ تھیں، لیکن اللہ نے ان کو وحی بھیجی۔[5] حضرت مریم (سلام اللہ علیہا) بھی پیغمبر نہیں تھیں لیکن فرشتہ ان سے بات کرتا تھا۔[6]
فرشتوں کا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے بات کرنا
کئی روایات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے محدثہ ہونے کی دلیل فراہم کرتی ہیں: امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
- "اس لیے فاطمہ کو محدثہ کہا گیا کیونکہ فرشتے آسمان سے نازل ہو کر، جیسے حضرت مریم سے بات کرتے تھے، ویسے ہی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے بھی بات کرتے تھے"۔[7]
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
- "حضرت فاطمہ پیغمبر کے وصال کے بعد ۷۵ دن سے زیادہ زندہ نہ رہیں، اور والد کے فراق میں ہر روز ان پر جانسوز غم وارد ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے جبرئیل مسلسل ان کے پاس آتے اور انہیں والد کی وفات پر تسلیت دیتے، اور ان کے غمگین دل کو تسلی دیتے۔ کبھی وہ حضرت فاطمہ کو ان کے والد کی عظمت اور مرتبہ بتاتے، اور کبھی ان حوادث سے آگاہ کرتے جو پیغمبر کی وفات کے بعد ان کی نسل پر پیش آنے والے تھے"۔[9]
حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت میں یہ الفاظ آئے ہیں: «السَّلَامُ عَلَيْكِ أَيَّتُهَا الْمُحَدَّثَه الْعَلِيمَه؛ سلام ہو آپ پر، اے وہ جو فرشتوں سے بات کرتی ہیں اور بڑی دانا ہیں۔»[10]
مصحف فاطمہ، حضرت فاطمہ کی محدثہ ہونے کی دلیل
مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) وہ کتاب ہے جس کے مضامین جبرئیل علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو بتائے اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے انہیں تحریر کیا۔ روایات کے مطابق، اس کتاب کے وجود پر کوئی شک نہیں کیا گیا ہے۔[11] مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی موجودگی سے متعلق روایات شیعہ کے قدیم ترین منابع میں آئی ہیں، جیسے بصائر الدرجات[12] اور الکافی.[13]
مصحف فاطمہ کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کے فرشتے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے بات کرتے تھے اور اس سے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی محدثہ ہونے کی حقیقت ثابت ہوتی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ حسینی زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواهر القاموس، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۱۹۲.
- ↑ صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی الله علیهم، قم، کتابخانه مرعشی نجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق، ص۳۶۷، باب۱، حدیث۱ و ۱۷.
- ↑ امینی، عبد الحسین، الغدیر، مرکز الغدیر للداسات الاسلامیه، ج۵، ص۶۷.
- ↑ صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی الله علیهم، قم، کتابخانه مرعشی نجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق، ص۳۶۷، باب۱.
- ↑ سوره قصص، آیه۷.
- ↑ سوره مریم، آیات۲۶–۱۶.
- ↑ ابن بابویه، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، ۱۳۸۵ش/ ۱۹۶۶م، ج۱، ص۱۸۲، باب۱۴۶، حدیث۱. طبری آملی صغیر، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الإمامه، قم، بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۳ق، ص۸۰، حدیث۲۰.
- ↑ صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی الله علیهم، قم، چاپ دوم، ۱۴۰۴ ق، باب۱۴، ص۱۵۷، حدیث۱۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ ق، ج۱، ص۲۳۸، بَابٌ فِیهِ ذِکْرُ الصَّحِیفَه وَ الْجَفْرِ وَ الْجَامِعَه وَ مُصْحَفِ فَاطِمَه، حدیث۲.
- ↑ صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی الله علیهم، قم، چاپ دوم، ۱۴۰۴ ق، باب۱۴، ص۱۵۴، حدیث۶.
- ↑ ابن بابویه، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۷۳. طوسی، محمد بن الحسن، تهذیب الأحکام، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ ق، ج۶، ص۱۰.
- ↑ الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۹ق، ج ۱، ص ۵۹۹–۶۰۰.
- ↑ صفار قمی، محمد بن الحسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی الله علیهم، تحقیق: محسن بن عباسعلی کوچه باغی، قم، مکتبة آیة الله المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق، ص ۱۷۰–۱۸۱.
- ↑ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۵۹۲–۶۰۲.