خدا کی معرفت کی ضرورت
خدا کو جاننے اور پہچاننے کی کیا ضرورت اور اہمیت ہے؟ خدا کی معرفت پر توجہ نہ دینے کے کیا نقصانات ہیں؟
متکلمین نے خدا کی معرفت کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے دو دلیلیں پیش کی ہیں۔ پہلی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر انبیاء اپنے بات میں سچے ہیں تو آخرت کے عذاب کا خطرہ ہے لہذا عقل کہتی ہے اس ممکنہ نقصان سے بچنے کے لئے انبیاء کی باتوں میں غور و خوض سے کام لیا جائے۔(دفع ضرر محتمل) یعنی عقل کہتی ہے ممکنہ خطرات سے خود کو بچانا واجب ہے۔ دوسری دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا نے انسان کو جو نعمتیں عطا کی ہیں، ان کا شکر ادا کرنا ضروری ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اسے پہچانا جائے۔(وجوب شکر منعم) یعنی عقل کہتی ہے کہ نعمتیں دینے والے کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔
اور اسی طرح پوری بشری تاریخ میں انسان کا خدا کی جانب متوجہ ہونا اور انسان کا فطری رجحان کہ وہ خالق کائنات کو پہچانے۔ ان دونوں باتوں نے بھی خدا کی معرفت کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔
خدا کی معرفت کی اہمیت
کائنات کے خالق کی شناخت کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی انسانوں کی توجہات اور فکرمندی کا مرکز رہا ہے، اور مختلف مذہبی لٹریچر اور کتابوں کا ایک بڑا حصہ خدا کی توصیف اور انسان اور دنیا کے ساتھ خدا کے تعلق کو بیان کرنے کے لئے وقف ہے۔
خدا کی معرفت کی اہمیت کو انسانی زندگی پر اس کے انفرادی اور اجتماعی اثرات کے نقطہ نظر سے بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کو پہچاننے(اور اس پر اعتقاد رکھنے) والے شخص کی زندگی، بنیادی طور پر اس شخص کی زندگی سے مختلف ہوتی ہے جو خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا۔ اسی طرح دو ایسے خدا پر اعتقاد رکھنے والے انسانوں کی زندگی کا موازنہ کرنے سے جن میں سے ہر ایک کا خدا کے بارے میں تصور دوسرے کے تصور سے مختلف ہے، بنیادی فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور یہ تمام فرق اس وجہ سے ہے کہ انسان کا خدا پر عقیدہ اور اس کی صفات کے بارے میں نظریہ، انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں، اس کے مقاصد، نیتوں، فیصلوں اور اعمال و رفتار پر مکمل طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا پر ایمان، انسانی زندگی کو ایک خاص رنگ اور اس کے لئے ایک مخصوص شخصیت اور پہچان عطا کرتا ہے۔
خدا کی معرفت کی ضرورت
انسان کی فطرت میں خدا کی معرفت کا ایک درجہ رکھا گیا ہے اور یہ اس کے وجود کے ساتھ گھل مل گیا ہے۔ یہ فطری معرفت صرف انسان کے اندر خدا کی معرفت کو بڑھانے اور وسعت دینے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ معرفت خدا حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے لئے مسلمان متکلمین نے خدا کی معرفت کی ضرورت کو سمجھنے کے دلیلیں پیش کی ہیں۔[1]
دفع ضرر محتمل (ممکنہ نقصان سے بچاؤ)
جو شخص بھی انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجے جانے اور ان کے ذریعہ خدا کی پرستش و عبادت کی دعوت سے آگاہ ہو، اس کے ذہن میں یہ احتمال و امکان ضرور پیدا ہوگا کہ اگر انبیاء (علیہم السلام) اپنی دعوت میں سچے ہوئے، اور اس شخص نے ان ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا جو انبیاء (علیہم السلام) لے کر آئے ہیں، تو وہ عذاب اور برے انجام سے دوچار ہوگا اور اس طرح اسے ایک بڑا نقصان اور گھاٹا اٹھانا پڑے گا۔ دوسری طرف سے عقل و فہم یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان کو حتی الامکان ہر ممکنہ نقصان اور خسارت سے بچنا چاہیے، چاہے اس نقصان کا بہت کم ہی امکان کیوں نہ ہو۔
کیونکہ ہر انسان کی نسبت یہ امکان پایا جاتا ہے کہ وہ مذہب کی پیروی نہ کرنے کی بناپر سزا اور عذاب میں مبتلا ہو، اور اسی طرح چونکہ عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا پر ایمان نہ لانے کے نقصانات سے بچا جائے، اس لئے عقل یہ حکم کرتی ہے کہ انسان کو خدا کے وجود اور اس کی صفات کے بارے میں تحقیق اور غور و فکر کرنا چاہیے۔ تاکہ اگر واقعا کوئی خدا موجود ہو اور انبیاء کی دعوت سچی ہو تو وہ ان کی پیروی کرکے اپنے کو خدا کے عذاب سے بچاسکے۔
وجوب شکر منعم (نعمتیں دینے والے کا شکر ادا کرنا ضروری ہے)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی زندگی میں بے شمار نعمتیں پائی جاتی ہیں۔ دوسری جانب سے انسانی عقل، "منعم" (نعمت دینے والے) کا شکر ادا کرنا ضروری سمجھتی ہے؛ لہٰذا انسان پر یہ لازم ہے کہ نعمت دینے والے کا شکر ادا کرے، اور چونکہ کسی کا شکر ادا کرنا اسے پہچاننے پر موقوف ہے، لہذا انسانی عقل یہ حکم کرتی ہے کہ انسان کو حقیقی نعمت دینے والے (جو کہ خدا ہے) کی معرفت کے راستے پر چلنا چاہیے۔
حوالہ جات
- ↑ علامه حلی، کشف المراد، ص۲۶۰ و ۲۶۱؛ السیوری، جمال الدین مقداد بن عبدالله (فاضل مقداد)، ارشاد الطالبین الی نهج المسترشدین، ص۱۱۱–۱۱۳.