رسول اللہ کے بارے میں امام علی کی رائے
امام علی (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کے لئے کن صفات اور خصوصیات کا ذکر کیا ہے؟
پیغمبر اکرم(ص) امیرالمومنین حضرت امام علی(ع) کے نقطہ نظر سے عظیم اوصاف کے مالک ہیں اور نہج البلاغہ میں ان میں سے بعض اوصاف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ [نہجالبلاغہ خطبہ ۱۵۱]] میں امیرالمومنین حضرت علی (ع)، پیغمبر گرامی اسلام (ص) کو گواہی دینے والا، بشیر یعنی بشارت دینے والا اور نذیر یعنی ڈرانے والا بتا رہے ہیں اور آپ کو تمام انسانوں میں سب سے زیادہ شریف و معزز شخصیت جانتے تھے، آپ کا اخلاق بھی تمام پاک و پاکیزہ افراد سے زیادہ پاک اور آپ سب سے زیادہ سخی تھے۔ [نہج البلاغہ خطبہ ۷۲]] کے ایک حصے میں، امیرالمومنین علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیس سے زیادہ اوصاف سے یاد کیا ہے: ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: عبودیت اور رسالت، نیز آپ اس شخصیت کے مالک تھے جس نے اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ رسالت کے سنگین بوجھ کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔
امام علی (ع) پیغمبر اکرم (ص) کو وہ متقی رہنما کہتے ہیں جنہوں نے لوگوں کو حق کی جانب بلایا اور بغیر کسی سستی، کاہلی یا کمی کے اپنی رسالت کو انجام دیا۔ امام علی (ع) پیغمبر اکرم (ص) کو ایک ایسا شخص سمجھتے تھے جنہوں نے دنیا کو ناچیز سمجھا اور دوسروں کی نظروں میں اسے حقیر دکھایا۔
نہجالبلاغہ خطبہ ۷۲
امام علی(ع) نہجالبلاغہ خطبہ ۷۲ کے ایک فراز میں، پیغمبر اکرم(ص) کو بیس سے زیادہ اوصاف سے یاد کرتے ہیں، اور ارشاد فرماتے ہیں: «اے اللہ اپنے بندے اور اپنے رسول، محمد(ص) پر اپنا قیمتی درود اور اپنی کثیر اور بڑھنے والی برکتیں نازل فرما».[1]
امام علی (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کے سلسلے سے جو بعض اوصاف بیان کئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:[2]
- عبودیّت،
- رسالت،
- خاتمیّت،
- وہ ذات جس نے بند دروازوں کو کھولا اور حق کو حق کے ساتھ واضح کیا؛
- وہ ذات جس نے باطل کے شور و غل کو برطرف کیا اور گمراہی کے حملوں کو کچل دیا؛
- وہ ذات جس نے اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ رسالت کے سنگین بوجھ کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا؛
- خدا کے حکم کے لئے قیام اور خدا کی رضایت و خوشنودی کی راہ میں قدم اٹھانا۔[3]
امام علی(ع) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ خدا کے احکامات کو پورا کرنے کے لئے جو قدم بھی اٹھاتے تھے، اس میں آپ کبھی نہیں ہچکچائے، نہ کبھی قدم پیچھے ہٹائے اور نہ ہی آپ کا عزم و ارادہ کبھی کمزور ہوا؛ جس نے تیری وحی کو آگاہی کے ساتھ لیا اور تیرےعہد کی پاسداری کی اور تیرے حکم کی تعمیل میں [پوری قدرت و سنجیدگی] کے ساتھ آگے بڑھے۔[4]
آپ اسی طرح اس راستے پر چلتے رہے یہاں تک کہ آپ نے حق کا راستہ تلاش کرنے والوں کے لئے حق کی چنگاری کو شعلہ ور کیا اور جاہلوں کے لئے راستے کو ہموار کیا، اور فتنوں و گناہوں میں ڈوبے ہوئے قلوب کو آپ کے وجود کی برکت سے ہدایت نصیب ہوئی)۔ آپ نے حق کو آشکار کرنے والے جھنڈے بلند کئے اور اسلام کے روشن احکام کو برپا کیا۔ وہ تیرے علوم کے خزانوں کے با اعتماد امانت دار و محافظ ہیں اور قیامت کے دن کے گواہ و شاہد ہیں اور آپ کو حق بیان کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا اور آپ مخلوق کے واسطے اللہ کے فرستادہ ہیں۔[5]
امام علی کی نظر سے پیغمبر کی نمایاں صفات
بیان ہوا کہ نہج البلاغہ میں آیا ہے کہ امام علی علیہ السلام پیغمبر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خدا نے پیغمبر (ص) کو انبیاء کے مضبوط درخت سے، نور ہدایت کے منبع سے، بلند و بالا مقام سے، اندھیروں میں روشن ہونے والے چراغوں سے اور حکمت کے سرچشموں سے منتخب کیا ہے؛ پیغمبراکرم (ص) بیماروں کے علاج کے لئے طبیب ہیں اور اندھے دلوں، بہرے کانوں اور گونگی زبانوں کو شفا دینے کے لئے شفا بخش مرہم ہیں؛ اور اپنی دواؤں کے ساتھ ایسے مریضوں کو مسلسل ڈھونڈھتے رہتے ہیں جنہیں بھلا دیا گیا ہے اور جو سرگرداں ہیں۔[6]
حضرت علی(ع) نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۱ میں ارشاد فرماتے ہیں: خداوند متعال نے محمد (ص) کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور آگاہی دینے والا بناکر بھیجا۔[7] وہ نبی جو بچپنے میں بہترین مخلوق تھے اور بڑھاپے میں سب سے زیادہ شریف اور معزز فرد تھے، آپ کا اخلاق تمام پاکیزہ لوگوں سے زیادہ پاکیزہ تھا اور آپ کے کرم کی بارش ہر چیز سے زیادہ پائیدار تھی۔[8] حضرت علی (ع) پیغمبر اکرم(ص) کو حق کی جانب دعوت دینے والے کے طور پر بیان کرتے ہیں جنہوں نے بغیر کسی سستی کے اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور بغیر کسی عذر کے خدا کی راہ میں دشمنوں سے جنگ کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم متقیوں کے سردار اور ہدایت یافتہ افراد کی آنکھوں کو روشنی بخشنے والے ہیں۔[9]
امام علی (ع) پیغمبر اکرم (ص) کو ایک ایسا شخص سمجھتے تھے جنہوں نے دنیا کو حقیر سمجھا اور دوسروں کے سامنے بھی اسے ناچیز دکھایا۔ پیغمبر اکرم (ص) دنیا کو پست سمجھتے تھے اور دوسروں کے سامنے بھی اسے پست اور بے وقعت کے طور پر متعارف کرواتے تھے۔ اور آپ اس بات سے واقف تھے کہ خداوند متعال نے آپ کی اہمیت کو مدنظر قرار دیتے ہوئے دنیا کو آپ سے دور رکھا اور اس کی بے قدری کی وجہ سے اسے دوسروں کو دے دیا۔ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ پیغمبراکرم(ص) نے اپنی روح اور قلب کی گہرائیوں سے دنیا سے روگردانی اختیار کی۔ آپ کو یہ پسند تھا کہ دنیا کی زینتیں کو آپ کی نگاہوں کے سامنے سے دور رکھا جائے، تاکہ آپ اسے عیش و عشرت کا لباس نہ بنائیں، یا اس میں رہنے کی آرزو نہ کریں۔[10]
حوالہ جات
- ↑ «[https://maaref.makarem.ir/fa/article/index/404290/پیغمبر(ص)-کی-خصوصیات-امام-علی(ع)-کی-زبانی پیغمبر(ص)کی خصوصیات امام علی(ع) کی زبانی، آیین رحمت، ملاحظہ کیجئے: ۲۲ تیر ۱۴۰۳ہ۔ش۔
- ↑ نہج البلاغہ، مصحح: صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیه، ۱۳۷۴ہ۔ش۔، خطبہ ۷۲، ص۱۰۱۔
- ↑ «[https://maaref.makarem.ir/fa/article/index/404290/ پیغمبر(ص)-کی-خصوصیات-امام-علی(ع)-کی-زبانی پیغمبر(ص)کی خصوصیات امام علی(ع) کی زبانی، آیین رحمت، ملاحظہ کیجئے: ۲۲ تیر ۱۴۰۳ہ۔ش۔
- ↑ «علی(ع)-کی-زبانی- پیغمبراکرم(ص) کی صفات امام علی(ع) کی زبانی»، آئین رحمت، ویوز: ۲۲ تیر ۱۴۰۳ش۔
- ↑ «علی(ع)-کی-زبانی- پیغمبراکرم(ص) کی صفات امام علی(ع) کی زبانی»، آئین رحمت، ویوز: ۲۲ تیر ۱۴۰۳ش
- ↑ «رسول-اکرم-کی-خصوصیات%22ص%22-امیرالمومنین-کے-نقطہ نظر-سے%22ع%22-نہج-البلاغہ-میں- امیرالمومنین(ع) کے نقطہ نظر سے پیغمبر اکرم(ص) کی خصوصیات نہج البلاغہ میں»، حوزوی اطلاعرسانی کی سائٹ، ویوز: ۲۲ تیر ۱۴۰۳ش.
- ↑ نہج البلاغہ، مصحح: صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہ۔ش۔، خطبہ ۱۰۵۔ ص۱۵۱۔
- ↑ نہج البلاغہ، مصحح: صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہ۔ش۔، خطبہ ۱۰۵۔ ص۱۵۱۔
- ↑ «پیغمبر اکرم(ص) کی خصوصیات امیرالمؤمنین(ع) کے نقطہ نظر سے نہج البلاغہ میں»، حوزوی اطلاعرسانی کی سائٹ، ویوز: ۲۲ تیر ۱۴۰۳ہ۔ش۔
- ↑ «پیغمبر اکرم(ص) کی خصوصیات امیرالمؤمنین(ع) کے نقطہ نظر سے نہج البلاغہ میں»، حوزوی اطلاعرسانی کی سائٹ، ویوز: ۲۲ تیر ۱۴۰۳ہ۔ش۔