سجدہ گاہ پر سجدہ

ویکی پاسخ سے
سؤال

سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے شیعوں کے پاس کیا دلیل ہے؟

شیعہ حضرات سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتے ہیں کیونکہ آپ سجده کرتے وقت اپنی پیشانی کو خاک پر رکھتے تھے۔ روایتیں کہتی ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک شخص کو فرش پر سجدہ کرنے سے روکا، اسی طرح آپ نے اس شخص کی تائید کی جو مسجد میں پتھر لیکر آیا تھا اور اسی پر سجدہ کر رہا تھا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے چچا جناب حمزه علیہ اسلام کی قبر کی مٹی سے سجدہ گاہ بنائی تھی۔ امام سجاد نے شہادت امام حسین کے بعد خاک کربلا سے سجدہ گاہ بنائی اور اسی پر نماز پڑھتے تھے۔

رسول ص اور آپ کے اصحاب کی سیرت

اہل سنت کے عالم عبد الوہاب شافعی:
«مجھے اہل سنت کی معتبر کتابوں میں ایک بھی روایت ایسی نہیں ملی جو فرش اور لباس پر سجدہ کرنے کے جواز کی صراحت کرتی ہو۔».[1]

شیعہ اور اہل‌سنت دونوں نے اچھی خاصی ایسی روایتیں نقل کی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سجده میں اپنی پیشانی کو خاک پر رکھتے تھے۔[2] روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کا فرمان تھا کہ زمین کو آپ کے لئے سجدہ گاہ اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا ہے۔[3] کتاب کنز العمال کی ایک روایت کے مطابق رسول نے اس شخص کو روکا جو فرش پر نماز پڑھ رہا تھا (فرش پر سجدہ کر رہا تھا) اور آپ نے فرش ہٹا دیا۔[4] اہل سنت کے دوسرے خلیفہ کے بیٹے عبد اللہ بن عمر سے نقل ہوا ہے کہ وہ ایک بارش والی رات میں نماز صبح کے لئے مسجد میں گئے۔ ایک شخص نے نماز کے لئے ایک مناسب سا پتھر لیا اور ایک کپڑا پھیلاکر اس پر پتھر کو رکھ دیا اور نماز پڑھ لی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے اس کو دیکھا اور اس کے عمل کی تحسین کی۔[5]

انھیں سب روایات کی بنیاد پر شیعہ علماء کا یہ نظریہ ہے کہ سجدہ یا تو زمین پر ہونا چاہئے یا ان چیزوں پر ہونا چاہئے جن پر سجدہ کرنا سنت رسول میں جائز ہے۔ پیغمبر کی اتباع کرتے ہوئے مسلمان خاک پر سجدہ کرتے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ اہل سنت کے پہلے خلیفہ ابوبکر ہمیشہ زمین پر نماز پڑھتے تھے اور اگر فرش پر نماز پڑھتے تھے تو اپنی پیشانی کو خاک پر رکھتے تھے۔[6] انھوں نے اس شخص کو روکا جو فرش پر نماز پڑھ رہا تھا۔[7] اہل سنت کے دوسرے خلیفہ عمر کی نظر میں سجدے کا مطلب پیشانی اور چہرے کو زمین پر رکھنا تھا اور وہ زمین پر سجدہ کرتے تھے۔[8] اہل سنت کے تیسرے خلیفہ عثمان بھی زمین پر سجدہ کرتے تھے۔[9] صحابی رسول اور صدر اسلام کے محدث عبدالله بن مسعود بھی صرف زمین پر نماز پڑھتے تھے۔[10] کچھ مسلمان جب مدینہ سے باہر کا سفر کرتے تھے تو مدینہ کی خاک سے سجدہ گاہ بناکر ساتھ لے جاتے تھے تاکہ اس پر نماز پڑھیں۔[11]

اہل بیت علیہم السلام کا سجدہ گاہ استعمال کرنا

حضرت فاطمہ زہرا نے جنگ اُحُد میں رسول کے چچا حمزه بن عبدالمطلب کی شہادت کے بعد ان کی قبر کی مٹی سے ذکر کے لئے تسبیح اور نماز کے لئے سجدہ گاہ بنائی۔[12]

امام سجاد نے بھی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خاک کربلا سے تسبیح بنائی اور اس سے ذکر پڑھتے تھے اور سجدہ گاہ بھی بنائی جس پر سجدہ کرتے تھے۔ شیعہ بھی اپنے ائمہ کی اتباع کرتے ہوئے کربلا کی سجدہ گاہ استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ کام شیعوں کا شعار اور ان کا طور طریقہ بن گیا۔[13]

منابع

  1. عرفانیان یزدی خراسانی، غلام‌ رضا، الوضوء و السجود فی الکتاب و السنۃ، قم، حوزه علمیہ، اول، ۱۳۷۲ش، ص۴۶.
  2. عرفانیان یزدی خراسانی، غلام‌ رضا، الوضوء و السجود فی الکتاب و السنۃ، قم، حوزه علمیه، اول، ۱۳۷۲ش، ص۵۷.
  3. امینی، راه و روش ما راه و روش پیامبر ما است، مترجم سید باقر موسوی، تہران، مکتبۃ الامام امیر المؤمنین، چاپ دوم، ۱۳۹۴، ص۲۳۱.
  4. الهندی، کنز العمال، ص۱۲۷.
  5. عطائی اصفهانی، ص۳۸ و ۳۹.
  6. الہندی، علامہ علاء الدین المتقی بن حسام الدین، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، سال ۱۴۰۹ ق، ج۸، ص۱۲۸.
  7. عطائی اصفهانی، ص۵۱.
  8. عطائی اصفہانی، ص۵۲.
  9. عطائی اصفہانی، ص۵۵.
  10. عرفانیان یزدی خراسانی، غلام‌ رضا، الوضوء و السجود فی الکتاب و السنۃ، قم، حوزه علمیہ، اول، ۱۳۷۲ش، ص۵۷.
  11. عطائی اصفهانی، صص ۶۹–۶۷.
  12. عرفانیان یزدی خراسانی، غلام‌ رضا، الوضوء و السجود فی الکتاب و السنۃ، قم، حوزہ علمیہ، اول، ۱۳۷۲ش، ص۶۷–۶۴.
  13. عرفانیان یزدی خراسانی، غلام‌رضا، الوضوء و السجود فی الکتاب و السنۃ، قم، حوزہ علمیہ، اول، ۱۳۷۲ش، ص۶۶–۴۶.