صرف ایک گناہ سے پوری قسمت کا الٹ جانا

ویکی پاسخ سے
سؤال

کیا صرف ایک گناہ کسی کو بدقسمت بنا سکتا ہے؟

انسان کا رویہ اس کی قسمت پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کو بدل سکتا ہے۔ کچھ گناہ جیسے قطع رحمی، جھوٹی قسم اور ظلم ایسے گناہوں میں شمار ہوتے ہیں جو دنیا میں انسان کی تقدیر کو خراب کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض دوسرے گناہ جیسے قتل عمد، انسان کی آخروی زندگی کو برباد کر دیتے ہیں اور انسان کو ہمیشہ کے لئے جہنمی بنا دیتے ہیں۔ یہ تاثیر اس وقت ہے جب انسان توبہ کئے بغیر اس دنیا سے چلا جائے۔ گناہوں کے علاوہ نیک اعمال جیسے صلہ رحمی بھی انسان کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور انسانوں کی خوش قسمتی میں موثر ہیں۔

دنیا میں بدقسمت ہو جانا

امام حسین علیہ السلام: «جو شخص بھی اپنی موت کے موخر ہونے اور روزی کے زیادہ ہونے سے خوش ہوتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھے»

بحارالانوار، ج۸۳، ص۱۶۱.

انسان کا کردار اس کی زندگی میں موثر ہوکر اس کی زندگی بدل سکتا ہے۔ کبھی کبھی ایک نیک عمل، اللہ کی خوشنودی کا سبب ہوتا ہے۔ اور اس کی قسمت کو بدل دیتا ہے۔ مثلا امام باقر علیہ السلام سے منقول ایک روایت کی بنیاد پر کچھ لوگ صلہ رحمی کی وجہ سے امیر ہو جاتے ہیں۔[1]

کچھ ایسے گناہ بھی ہیں جو انسان کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں:

  • امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت کے مطابق قطع رحم، انسان کی عمر کے کم ہونے کا باعث ہوتا ہے۔[2]
  • امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: «تین خصلتیں ایسی ہیں کہ انسان ان کے نتائج بھگتے بغیر نہیں مر سکتا: ایک ظلم، دوسرے قطع رحمی اور تیسرے جھوٹی قسم۔[3]
  • امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے ماں باپ کو دشمنی کی نگاہ سے دیکھے تو چاہے انھوں نے اس پر ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو پھر بھی خداوند عالم اس کی نماز کو قبول نہیں کرے گا۔[4]

آخرت کی تقدیر کا بدل جانا

اسلامی تعلیمات کے مطابق کچھ گناہ انسان کو ہمیشہ کے لئے جهنم میں بھیج دیتے ہیں۔ البتہ یہ اس صورت میں ہے جب انسان توبہ کئے بغیر اس دنیا سے چلا جائے۔ اور اگر وہ دنیا میں توبہ کرلے تو اس کے اخروی آثار دھل جاتے ہیں اور ان کا عذاب اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسے گناہوں کی کچھ مثالیں بھی دی گئی ہیں:

  • قرآن کا ارشاد ہے: ﴿وَمَن يَقۡتُلۡ مُؤۡمِنٗا مُّتَعَمِّدٗا فَجَزَآؤُهُۥ جَهَنَّمُ خَٰلِدٗا فِيهَا وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيۡهِ وَلَعَنَهُۥ وَأَعَدَّ لَهُۥ عَذَابًا عَظِيمٗا کسی مسلمان کے قتل کا شمار گناہان کبیرہ میں ہوتا ہے اور یہ آخرت میں انسان کی تقدیر کو بدل کر اسے ہمیشہ کے لئے جہنمی بنا سکتا ہے۔
  • جو شخص «ربا» یعنی سود کھاتا ہے وہ قرآن کی آیات کے مطابق خدا و رسول سے جنگ پر نکل رہا ہوتا ہے۔[5]

منابع

  1. اصول کافی، ترجمہ کمره ای، محمد باقر، انتشارات اسوه، ۱۳۷۵ش، ج۵، ص۳۱۵–۳۰۵.
  2. اصول کافی، ترجمہ کمره ای، محمد باقر انتشارات اسوه، ۱۳۷۵ش، ج۵، ص۳۱۵–۳۰۵.
  3. اصول کافی، ترجمہ کمره ای، محمد باقر انتشارات اسوه، ۱۳۷۵ش، ج۵، ص۳۱۵–۳۰۵.
  4. اصول کافی، ترجمہ کمره ای، محمد باقر انتشارات اسوه، ۱۳۷۵ش، ج۵، ص۳۱۵–۳۰۵.
  5. يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ. فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ فَأۡذَنُواْ بِحَرۡبٖ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِ۔ سورہ بقرہ،278/279