عہدِ نبوی (ص) میں قرآن کی حفاظت
نبی اکرم (ص) نے اپنی زندگی ہی میں قرآن کریم کی کتابت کا کام کیوں مکمل نہیں کرلیا تاکہ اس میں کوئی اختلاف رائے نہ باقی رہتا؟
پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کریم کو محفوظ کرنے اور اس کی حفاظت کے لئے اپنی زندگی ہی میں متعدد اقدامات انجام دئے۔ اپنے بعض صحابہ کے ساتھ مل کر قرآن کی آیات کو حفظ کرنے کا کام انجام دیا۔ اسی طرح قرآن کے متن کو محفوظ کرنے کے لئے آپ نے کاتبین وحی کو آیات لکھنے کا حکم دیا، جن میں سرفہرست امام علی علیہ السلام تھے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں لکھا گیا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ قرآن کو جو مختلف کاغذوں پر لکھا ہوا تھا، ایک جگہ جمع کریں تاکہ قرآن تورات کی طرح ضائع نہ ہو جائے۔
قرآن کو حفظ کرنے کا حکم
ابن عباس کہتے ہیں:
- «جب جبرائیل وحی کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کرتے تو آپ اسے بھول نہ جائیں اس لئے اس کی تلاوت فرماتے تھے...»۔[1]
قرآن کریم کے نزول کے آغاز میں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عزیز ساتھیوں کے قوی حافظے اور تشویق و ترغیب سے مدد لیتے ہوئے قرآن کریم کو حفظ کرنے کی ترغیب دلائی۔
صرف حافظوں میں قرآن کریم کو محفوظ کرنے لینے پر اعتماد، قرآن کی حفاظت کا اطمینان فراہم نہیں کر سکتا تھا، اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے چند تعلیم یافتہ افراد سے درخواست کی کہ وہ قرآن کریم کو احتیاط کے ساتھ لکھیں اور اسے محفوظ کریں۔
قرآن کی کتابت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ایک گروہ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کو محفوظ کرنے اور اس کی حفاظت کے لئے اس کی آیات کو حفظ کرنے کا اہتمام کیا۔ نیز، قرآنی آیات کو محفوظ کرنے کے لئے، اپنے اور دوسروں کے حافظے سے استفادہ کرنے کے علاوہ، آپ نے قرآن کے کاتبوں (کاتبان وحی) کو حکم دیا کہ وہ قرآن کریم کو لکھیں، جن میں امام علی علیہ السلام سرفہرست تھے۔[2]
علی بن ابی طالب علیہ السلام کاتبان وحی میں سب سے ممتاز اور سرفہرست تھے، جبکہ ابوبکر، عمر بن خطاب، عثمان، زید بن ثابت، اُبی بن کعب، حنظلة بن ربیع، ثابت بن قیس اور دیگر حضرات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن کریم کے مشہور کاتب تھے۔ حتیٰ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بعض افراد جیسے عبداللہ بن مسعود، اُبی بن کعب، مقداد وغیرہ نے صحیفے لکھے تھے۔[3]
قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہی جمع اور مرتب ہو گیا تھا۔ کاتبان وحی آیات کو مسلسل لکھتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «کان یعرف انقضاء السوره بنزول بسم الله الرحمن الرحیم.؛ سورت کے اختتام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے نزول سے جو اگلی سورت کے آغاز میں نازل ہوتی تھی پہچانا جاتا تھا۔».[4] پس قرآن کریم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے لکھا جاتا تھا۔
آیت اللہ خوئی لکھتے ہیں:
- «پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے حالات کا مطالعہ کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم آپ کے زمانے میں ہی جمع اور مرتب ہو گیا تھا.»۔[5]
آیت اللہ معرفت بھی رقمطراز ہیں:
- «قرآن کا موجودہ شکل میں جمع اور ترتیب ہونا ایک ہی وقت میں انجام نہیں پایا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف افراد اور گروہوں کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہونچا ہے۔ سورتوں کی ترتیب، نظم اور آیات کی تعداد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں اور آپ کے حکم سے انجام پائی، اور یہ توقیفی امر ہے، جسے تعبداً قبول کرنا چاہیے.».[6]
آیت الله معرفت نیز میگوید: «جمع و تألیف قرآن به شکل کنونی در یک زمان صورت نگرفته، بلکه به مرور زمان و به دست افراد و گروههای مختلف انجام شده است. ترتیب، نظم و عدد آیات در هر سوره در زمان حیات پیامبر اکرم(ص) و با دستور آن بزرگوار انجام شده و توقیفی است و باید آن را تعبداً پذیرفت».[7]
امام علی علیہ السلام کو جمع آوری شدہ قرآن کریم کی ترتیب و تدوین کا کام سونپا گیا
سانچہ:اصلی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں اور آپ کے حکم سے قرآن کریم کاتبان وحی کے ذریعہ مختلف اشیاء پر لکھا گیا تھا، اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر حضرت علی علیہ السلام نے ترتیب و تدوین کی ذمہ داری قبول فرمائی۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: «يَا عَلِيُّ الْقُرْآنُ خَلْفَ فِرَاشِي فِي الصُّحُفِ وَ الْقَرَاطِيسِ فَخُذُوهُ وَ اجْمَعُوهُ وَ لَا تُضَيِّعُوهُ كَمَا ضَيَّعَتِ الْيَهُودُ التَّوْرَاةَ.؛ اے علی! یہ قرآن میرے بستر کے پیچھے صحیفوں اور کاغذوں کے درمیان رکھا ہوا ہے، اسے جمع کرو اور اسے اس طرح ضائع مت ہونے دو جس طرح یہودیوں نے تورات کو ضائع کر دیا۔».[8]
حوالہ جات
- ↑ طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲۷؛ نگاه کنید به سوره قیامت، آیات۱۶–۱۸.
- ↑ نگاه کنید به معرفت، محمد هادی، التمهید فی علوم القرآن.
- ↑ نگاه کنید به صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، ص۱۰۱.
- ↑ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۸۹، ص۲۳۶.
- ↑ خوئی، ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، ص۲۵۰.
- ↑ نگاه کنید به معرفت، محمدهادی، علوم قرآنی، ص۱۱۹.
- ↑ نگاه کنید به معرفت، محمدهادی، علوم قرآنی، ص۱۱۹.
- ↑ مجللسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۸۹، ص۴۸.