قرآن مجید کی تدوین

ویکی پاسخ سے
سؤال

قرآن مجید کی تدوین کب اور کس نے کی؟

اسلامی علماء و مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی تدوین کس نے کی اور کب کی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں اور سوروں کی ترتیب ایک توقیفی عمل ہے جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حیات کے دوران خود انجام دیا تھا۔

اس قول کے مقابلے میں ایک دوسرا بھی قول ہے جس کے قائلین معتقد ہیں کہ قرآن مجید کی تدوین اور جمع آوری کا کام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد انجام پایا ہے جو صحابائے کرام کے اجتہاد، اختیار اور ابتکار کا نتیجہ ہے۔

سوروں اور آیتوں کی ترتیب

عصر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قرآن مجید کی جمع آوری

قرآنی علوم کے بعض دانشوروں کا یہ ماننا ہے کہ جو قرآن مجید سوروں اور آیتوں کی ترتیب کے ساتھ اس وقت ہمارے درمیان موجود ہے بالکل اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تدوین کا کام انجام پاچکا تھا۔ یعنی اس وقت کا قرآن مجید ویسے ہی ہے جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تھا اس میں کسی طرح کا کوئی رد و بدل نہیں ہوا ہے۔[1] اس نظریہ کے قائل افراد نے اپنے مدعا کی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند کو ذیل میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے[2]:

  • پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے سلسلہ میں ایک خاص اہتمام برتتے تھے اور اس کی تلاوت اور اس کے حفظ (یاد کرنے) میں خاص توجہ کرتے تھے۔
  • جو قرآن مجید کے حافظ تھے وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آکر اسے سناتے تھے۔
  • اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کاتبان قرآن کریم موجود تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو وحی ہوتی تھی اسے وہ املا کرکے لکھواتے اور نوشتہ شدہ متن کے اشتباہات کی نشاندہی فرماتے اور اس کی تصحیح فرماتے تھے۔ یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کی کتابت کے سلسلے میں کس قدر حسّاس و محتاط اور خاص توجہ رکھتے تھے۔
  • قرآن مجید کا ختم کرنا اس زمانہ میں رائج تھا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کا آغاز کہاں سے ہے اور اس کا اختتام کہاں پر ہے، یعنی قرآن مجید کہاں سے شروع ہوکر کہاں پر ختم ہورہا ہے اسی زمانہ میں موجود تھا۔
  • متعدد روایتیں موجود ہیں کے صحابائے کرام نے قرآن مجید کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہی جمع کیا تھا۔

اور بھی دوسری غیر تاریخی دلائل موجود ہیں جن کی بنا پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تدوین قرآن مجید کے قائل نہ ہوں تو پھر اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تسامح اور سہل انگاری کا مسئلہ پیش آئے گا جو اصلاً قابل قبول نہیں ہے، کیوں کہ اگر قرآن مجید کی تدوین، ترتیب اور جمع آوری کا کام پیغمبر اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یا ان کے ذریعہ انجام نہیں پاتا تو پھر قرآن مجید کے سلسلے میں تحریف، پراکندگی اور متعدد نسخوں کا دروازہ کھل جاتا اور طول تاریخ قرآن کریم میں تحریف ممکن ہوجاتی۔ اور دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کی ترتیب، تدوین اور جمع آوری خود کار رسالت کاایک حصہ تھا تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کار رسالت کو چھوڑ دیتے۔

تمام دلیلیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ سوروں اور آیتوں کی ترتیب خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ انجام پائی ہیں۔ یا اگر صحابائے کرام کے ذریعہ بھی یہ کام انجام پایا ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارشات، ہدایات اور نگرانی میں انجام پایا ہے، کیوں کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ تمام صحابائے کرام کا کام اور اجتہاد کا محور ایک ہو کہ کون سا سورہ کہاں ہونا چاہیے اور کون سی آیت کہاں ہونی چاہیے ساتھ ہی ساتھ قرآن مجید کی ابتدا کس سورہ سے اور اس کی انتہا کس سورہ پر ہونی چاہیے۔ یقینی طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلہ میں اپنا نظریہ پیش کیا تھا تبھی تو صحابائے کرام کا کام ایک ہی محور پر تمام ہوا ہے۔

قرآن مجید کی تدوین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد

سانچہ:نوشتار اصلی

قرآن مجید کی تدوین و ترتیب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابائے کرام کے توسط سے انجام پائی ہے۔ اہل سنت کے بزرگ عالم دین سیوطی کا کہنا ہے کہ علمائے اسلام سب اس عقیدے پر متفق ہیں۔[3]

اس سلسلہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ پہلی بار خلیفہ اول (ابو بکر) کے زمانہ میں زید بن ثابت کی کوشش و کاوش سے قرآن مجید کی تدوین ہوئی۔ اس سے پہلے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ایک مصحف (قرآن مجید) تدوین کرچکے تھے۔ صحابائے کرام میں سے بھی کچھ بزرگوں نے قرآن مجید کی تدوین اور جمع آوری کا کام انجام دیا تھا۔ اسی وجہ سے قرآن مجید کے الگ الگ نسخے وجود میں آئے۔ اور چونکہ اس زمانہ میں اعراب گزاری کا رواج نہیں تھا جس کی وجہ سے متعدد قرائت یا قرائت میں اختلاف نظر آتا ہے۔ اسی وجہ سے متعدد نسخے عثمان بن عفان (خلیفہ سوم) کے زمانہ میں تمام مصاحف کو ایک کرنے کے محرک بنے۔[4]

مصحف واحد کا اہتمام

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وحی کی کتابت کا کام چل رہا تھا، چونکہ ابھی نزول وحی کا سلسلہ جاری تھا جس کی وجہ سے قرآن مجید کی جمع آوری ایک واحد نسخہ میں نہیں ہوسکی تھی۔ قرآن مجید کے اہم ترین کاتبوں میں سے امام علی علیہ السلام، أبی بن کعب اور زید بن ثابت تھے، جب کے ان کے علاوہ اور بھی کاتبین وحی تھے جن کا شمار دوسرے درجہ میں ہوتا تھا۔[5] البتہ بعض لوگوں نے مکی زمانہ کی زندگی میں کاتبان وحی خلفائے راشدین، طلحہ، زبیر اور سعد بن ابی وقاص وغیرہ کا نام ذکر کیا ہے۔[6]

خلیفہ اول کے زمانہ میں قرآن مجید کی تدوین ’’زین بن ثابت‘‘ کے ذریعہ انجام پائی، صحابائے کرام میں سے بعض بزرگ صحابہ جیسے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام بھی قرآن مجید کی تدوین میں مشغول ہوئے، چنانچہ مصحف کی جمع آوری میں جن کی حیثیت ممتاز تھی ان کے مصاحف بڑی جلدی مسلمانوں کے مورد توجہ قرار پاگئے۔[7]

سب سے اصلی اور اہم ترین کام قرآن کریم کے متعدد نسخوں میں سے وہ نسخے جو آپس میں متعارض اور ایک دوسرے سے اختلاف کے حامل تھے انہیں حذف کرکے ایک مصحف واحد کا اعلان کرنا تھا، جو عثمان بن عفان (خلیفہ سوم) کے زمانہ میں حافظوں اور کاتبوں کی مدد سے انجام پایا۔ بہت سے لوگ مصحف کی جمع آوری میں مشغول تھے، لیکن یہ افراد اپنی صلاحیت، استعداد اور قابلیت کے لحاظ سے ایک ہی طرح کے نہیں تھے بلکہ ان میں اختلاف پایا جاتا تھا اور ان کی آپس میں ایک دوسرے سے ہماہنگی بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے ہر ایک نسخہ روش، ترتیب، قرائت وغیرہ کے اعتبار سے فرق کرتا تھا۔

مصاحف اور قرائت میں اختلاف کی وجہ سے لوگوں کے درمیان اختلاف کی بذر پاشی ہورہی تھی، لہذا خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے ’’حذیفہ بن یمانی‘‘ کے مشورہ پر مصاحف کو ایک کرنے کا مصمم ارادہ بنایا اور پھر صحابائے کرام کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مصاحف کو یکساں کیا جائے لہٰذا اس کام کے لیے ’’ابی بن کعب‘‘ کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور مصحف کے نسخوں کو ایک کرنے کا کام شروع کردیا۔[8]

سیوطی کا بیان ہے کہ: حضرت علیؑ نے بھی اس سلسلہ میں اپنی رائے موافق کو ایک بڑے اچھے اسلوب اور اصولی انداز میں پیش کیا۔[9] کیوں کہ متعدد مصاحف، الگ الگ قرائت کی روش اور مختلف لہجے، قرآن مجید کی آیتوں میں واقعی اختلاف کا سبب بن رہے تھے تو خلیفہ سوم نے قرآن مجید کی تلاوتوں میں بے ترتیبی اور اضطراب کو دیکھتے ہوئے ایک مصحف واحد کی تدوین اور جمع آوری کے بعد دوسرے تمام مصاحف کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا، البتہ ان کا یہ عمل عوام کی طرف سے تنقید اور سرزنش کا باعث بنا۔[10]

قرآن مجید کی تدوین پر ائمہ علیہم السلام کی تائید

ائمہ معصومین علیہم السلام اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن مجید کو ایک معیاری اور مرسوم نسخے اور قرائت کے مطابق تلاوت کرنی چاہیے۔ جیسا کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے جب خلافت ظاہری کی باگ ڈور سنبھالی تو لوگوں کو حکم دیا کہ اسی مصحف کو اپنائیں یعنی تلاوت کے لیے اسی مصحف کو اپنی زندگی کا جز بنالیں جو عثمان کے توسط سے تدوین ہوا ہے اور اس میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی انجام نہ دیں۔ انہوں نے یہ حکم اس لیے دیا تھا کہ اس کے بعد اب کوئی بھی قرآن کریم میں اصلاح کے نام پر کوئی تبدیلی اور تحریف انجام نہ دے پائے۔[11]

اسی طرح شیعہ اپنے معصوم اماموں کی پیروی کرتے ہوئے معتقد ہیں کہ یہی قرآن مجید جو حال حاضر مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے جامع اور مکمل قرآن ہے۔ اس میں کبھی بھی کسی طرح کی کوئی تبدیلی یا تحریف نہیں ہوئی ہے، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام کے حضور میں ایک شخص نے قرآن مجید کی تلاوت میں ایک آیت کو دوسروں کی قرائت کے برخلاف پڑھا تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا: آئندہ اس طرح قرائت نہ کرنا جس طرح سب قرائت کرتے ہیں اسی طرح قرائت کرو۔[12]

مزید مطالعہ کے لیے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں

  1. تاریخ و علوم قرآن، میر محمدی زرندی
  2. نگاہی بہ قرآن، علی اکبر قرشی
  3. تاریخ قرآن، آیت اللہ معرفت
  4. علوم قرآن، آیت اللہ معرفت

حوالہ جات

  1. خرمشاهی، بهاءالدین. دانشنامه قرآن کریم. ج. ۱. ص. ۴۵۹. ؛ زقزوق، محمود حمدی (۱۴۲۳). الموسوعة القرآنیة المتخصصة. القاهرة: وزارة الاوقاف. المجلس الاعلی للشئون الاسلامية. ص. ۲۲۴.
  2. مرتضی عاملی، سید جعفر (۱۳۶۸). تاریخ تدوین قرآن کریم. کیهان اندیشه.
  3. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر (۱۳۹۴). الاتقان فی علوم القرآن. ج. ۱. القاهرة: الهيئة المصرية العامة للكتاب. ص. ۱۳۵.
  4. جوان آراسته، حسین. درسنامه علوم قرآنى. ج. ۱. ص. ۷.
  5. معرفت، محمدهادى. تاريخ قرآن. ج. ۱. ص. ۲۸.
  6. خرمشاهی، بهاءالدین. دانشنامه قرآن کریم. ج. ۱. ص. ۴۵۹.
  7. جوان آراسته، حسین. درسنامه علوم قرآنى. ج. ۱. ص. ۷.
  8. معرفت، محمدهادی. التمهید فی علوم القرآن. ج. ۱. ص. ۳۳۴–۳۸۵.
  9. الاتقان فی علوم القرآن. ج. ۱. ص. ۱۲۶.
  10. معرفت، محمدهادی. التمهید فی علوم القرآن. ج. ۱. ص. ۳۳۴–۳۸۵.
  11. پژوهشی در تاریخ قرآن. ص. ۴۴۸–۴۶۲.
  12. حر عاملی، محمد. وسائل الشیعه. ج. ۴. ص. ۸۲۱.