امام علی علیہ السلام کے کلام میں موت کی سفر سے تشبیہ

ویکی پاسخ سے
سؤال

موت کے سلسلے سے امام علی علیہ السلام سے ایک روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے: «تمہارا عزیز ایک سفر پر چلا گیا ہے، اور یہ سفر دیگر سفروں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ وہ واپس نہیں آئے گا، بلکہ تمہیں اس کی طرف جانا ہوگا۔» اس روایت کے بارے میں وضاحت فرمائیے.

امام علی علیہ السلام نے ایک حدیث میں موت کو ایک ایسے سفر سے تشبیہ دی ہے جس سے واپسی نہیں ہوتی؛ یہ ایک ایسا سفر ہے جس کا مسافر لوٹ کر نہیں آتا، بلکہ زندہ انسانوں کو خود اس مسافر کی جانب سفر کرنا پڑتا ہے۔ روایات میں موت کے بارے میں دوسرے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں؛ مثلا موت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی یا کپڑوں کے بدلنے جیسی تشبیہات سے بھی بیان کیا گیا ہے۔

حدیث کا متن

ایک فوت شدہ مسلمان کے پسماندگان سے ملاقات میں امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

شرح

ابن میثم بحرانی، جو ساتویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور فقیہ تھے، آپ نے اپنی شرح نہج البلاغہ میں موت کے سلسلے سے امام علی علیہ السلام کے بیان کو سوگواروں کے لئے تسلی بخش اور قانع کرنے والا قرار دیا ہے۔[2]

میرزا حبیب اللہ خوئی (۱۲۶۵-۱۳۲۴ھ۔ق۔)، فقیہ اور نہج البلاغہ کے شارح نے موت سے متعلق امام علی علیہ السلام کے اس بیان کو فصیح اور قائل کرنے والا بتایا ہے۔ ان کے مطابق امام علیہ السلام نے اس بیان میں موت کے بعد انسان کی بقا سے باخبر کیا ہے اس کے مطابق جو اس نے دنیا میں جمع کیا ہے۔ حبیب اللہ خوئی نے امام علیہ السلام کے نظریے کے مطابق موت کو ایک قابل مشاہدہ دنیا سے ایک ناقابل مشاہدہ دنیا کی جانب سفر کے طور پر پیش کیا ہے؛ ایسا سفر جس سے فوت شدہ شخص واپس نہیں آتا، بلکہ اس کے احباب آخرکار اس سے جاکر ملیں گے اور اس کے ساتھ انسیت حاصل کریں گے۔ یہ انسیت اسی طرح ہے جیسے کوئی دوست اپنے سفر پر گئے ہوئے دوست سے مل کرحاصل کرتا ہے۔[3]

امام سجاد علیہ السلام نے موت کی حقیقت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا: «مؤمن کے لئے موت میلے کپڑوں کو اتارنے، بھاری زنجیروں کو توڑنے، اور نفیس ترین خوشبو دار لباس پہننے، آرام دہ سواریوں اور محفوظ ترین گھروں میں منتقل ہونے کی مانند ہے۔ اور کافر کے لئے موت بدن سے نفیس کپڑوں کو اتارنے، محفوظ گھروں سے نکلنے اور ان کی جگہ کثیف ترین اور کھردرے لباس پہننے، خوفناک ٹھکانوں میں منتقل ہونے کی مانند ہے اور عظیم عذاب میں مبتلا ہونا ہے۔».[4]



حوالہ جات

  1. نهج‌البلاغه، ترجمه: جعفر شهیدی، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، ۱۳۷۸ش، حکمت ۳۵۷، ص۴۲۴.
  2. ابن میثم بحرانی، میثم بن علی، شرح نهج البلاغه، تهران، دفتر نشر الکتاب، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۴۱۷.
  3. خویی، حبیب‌الله بن محمد هاشمی، منهاج البراعة فی شرح نهج البلاغه، تهران، مکتبة اسلامیة، ۱۴۰۰ق، ۲۱، ص ۴۳۹.
  4. م‍ح‍م‍دی ری‌ش‍ه‍ری، م‍ح‍م‍د، میزان الحکمه، ترجمه: حمیدرضا شیخی، قم، مؤسسه علمی فرهنگی دارالحدیث، ۱۳۸۶ش، ج۱۱، ص۱۹۴.

سانچہ:تکمیل مقاله