حسنین (ع) کا رسول خدا (ص) کے کاندھوں پر سوار ہونا

ویکی پاسخ سے
سؤال

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث کا مفہوم اور ماخذ جو آپ نے فرمایا:"نعم الجمل جملکما و نعم العدلان انتما" کا کیا مطلب ہے؟

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا رسول خدا (ص) کی پشت پر سوار ہونا ایک روایت میں نقل ہوا ہے جو مختلف الفاظ کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے۔ اس روایت کے مضمون سے رسول خدا (ص) کی اپنے نواسوں، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

شیعہ راویوں میں سے اس روایت کو نقل کرنے والوں میں ابن شہرآشوب نے مناقب میں اور علامہ حلی نے کشف الیقین میں ذکر کیا ہے۔ اس روایت کو نقل کرنے کا سب سے معروف طریق، سفیان ثوری سے ہے، آپ جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں۔

حدیث کا متن

یہ روایت شیعہ اور اہل سنت کی حدیثی اور تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔ حدیث کا متن اس طرح ہے: «عن جابر بن عبدالله قال: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ عَلَى ظَهْرِهِ وَ هُوَ يَجْثُو بِهِمَا وَ يَقُولُ نِعْمَ الْجَمَلُ جَمَلُكُمَا وَ نِعْمَ الْعَدْلَانِ أَنْتُمَا.؛ جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ آپ کی پشت پر امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سوار تھے۔ رسول خدا (ص) ان دونوں کے لئے جھک رہے تھے اور فرما رہے تھے: " تم دونوں کی سواری کتنی اچھی ہے اور تم دونوں کتنے اچھے سوار ہو!"»

مصادر اور روات

یہ روایت مختلف الفاظ اور مشابہ معنی کے ساتھ اہل سنت کی متعدد کتابوں میں نقل ہوئی ہے، جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  1. ابن عدی جرجانی (277-365ھ)، شافعی محدّث اور رجالی، نے اپنی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔[1]
  2. ابن بطہ عکبری (304-387ھ)، حنبلی فقیہ، محدّث اور متکلم، نے اپنی کتاب الابانہ صغری میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔[2]
  3. ابوسعد خرگوشی (وفات: 406 یا 407ھ)، شافعی محدّث اور صوفی، نے اپنی کتاب شرف النبی میں اس موضوع پر دو روایات نقل کی ہیں۔[3]
  4. ابن عساکر (499-571ھ)، اہل سنت کے محدّث اور مورخ، نے اپنی کتاب تاریخ دمشق میں یہ حدیث نقل کی ہے۔[4]
  5. ذهبی (673-748ھ)، اہل سنت کے رجالی اور محدّث، نے اپنی دو کتابوں سیر اعلام النبلاء[5] اور میزان الاعتدال میں اس روایت کو ذکر کیا ہے، لیکن دوسری کتاب میں اسے غیر صحیح قرار دیا ہے۔[6]

یہ روایت شیعہ مصادر میں بھی مختلف الفاظ اور مشابہ معانی کے ساتھ موجود ہے، ان کتابوں میں یہ روایت اہل سنت مصادر سے نقل کی گئی ہے۔ جن میں سے چند مصادر درج ذیل ہیں:

حوالہ جات

  1. ابن عساکر، عبدالله بن عدی جرجانی، الکامل في ضعفاء الرجال،‌ تحقیق سهیل زکار، یحیی مختار غزاوی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۵۹.
  2. ابن شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل أبی‌طالب، تحقیق محمدحسین آشتیانی، سید هاشم رسولی محلاتی، قم، علامه، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۳۸۷.
  3. خرگوشی، ابوسعد عبدالملک بن محمد، مناحل الشفا و مناهل الصفا بتحقیق کتاب شرف المصطفی صلی الله علیه و سلم، روایت عبدالکریم بن هوازن قشیری، مکه، دار البشائر الإسلامیة، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۹۵.
  4. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینة دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر،‌ ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۱۷.
  5. ذهبی، شمس‌الدين محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق مجموعة من المحققين بإشراف شعيب الأرناؤوط، مؤسسة الرسالة، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۲۵۶.
  6. ذهبی، شمس‌الدين محمد بن أحمد، ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، تحقيق علی محمد البجاوی، بیروت، دار المعرفة للطباعة والنشر،۱۳۸۲ق، ج۴، ص۹۷.
  7. ابن شهرآشوب، مناقب آل أبی‌طالب، ج۲، ص۳۸۷.
  8. اربلی، علی بن عیسی، كشف الغمة فی معرفة الأئمة( ط- القديمة) تحقیق سید هاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنى هاشمى‌، ۱۳۸۱ق.
  9. علامه حلی، حسن بن یوسف، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، تهران وزارة الثقافة و الإرشاد الإسلامی، مؤسسة الطبع و النشر، ۱۴۱۱ق، ص۳۰۷.
  10. مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بِحارالانوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار بیروت، دار إحياء التراث العربی، ۱۴۰۳ق، ج۴۳، ص۲۸۵-۲۸۶.
  11. مجلسی بِحارالانوار، ج۴۳، ص۲۸۵.

سانچہ:تکمیل مقاله